بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نشے کی حالت میں بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے


سوال

زید کی شادی کو 28 سال ہو چکے ہیں ، دو سال سے وہ نشے میں مبتلا ہے ، گھر میں اکثر لڑائیاں کرتا ہے ، زیادہ نشہ کرنے کی وجہ سے  زید کے دماغ پر اثر ہوا ہے ، جس کی وجہ سے اس نے بیوی کو دس مرتبہ یہ الفاظ کہے ہیں کہ: "میں طلاق دیتا ہوں "، کبھی اس طرح طلاق کے الفاظ کہے ہیں :"میں نے تمہیں طلاق دے دیا " ،قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہا ہے کہ :"میں نے طلاق دے دی ہے "اور طلاق پیپر پر بھی دستخط کر  چکا ہے ، لیکن جب ہوش میں آتا ہے تو عینی گواہوں میں سے کوئی پوچھتا ہے کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ تو  وہ کہتا ہے  کہ میں نے طلاق نہیں دی اور اسی طرح جب ہوش میں آتا ہے تو روتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اپنی بیوی کے بغیر نہیں رہ سکتا ہوں ۔میاں بیوی میں بہت پیار تھا ، لیکن میاں  زید نشے کی وجہ سے بار بار طلاق کے الفاظ بولتا ہے ۔

آپ سے  سوال یہ ہے کہ  کیا اس طرح نشے کی حالت  دی ہوئی طلاق واقع ہوجاتی  ہے یا نہیں ؟

جواب

واضح رہے کہ  شراب ،ہیروئن  وغیرہ کے نشے کی حالت میں دی گئی  طلاق  بھی شرعاً واقع ہو جاتی ہے ؛ لہذا صورتِ مسئولہ میں ذکر کردہ تفصیل  اگر  واقعتًا  صحیح اور درست ہے تو ایسی صورت میں  زیدکے  باربار کہے جانے والے یہ کلمات کہ :" میں طلاق دیتا ہوں ، میں نے  تمہیں طلاق دے دی ہے " سے بیوی  پر   تینوں  طلاقیں   واقع ہو چکی ہیں اور بیوی شوہر پر حرمت ِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے  ، رجوع اورتجدیدِنکاح   کی گنجائش نہیں ہے، نکاح ختم ہو گیا ہے ؛ لہذا دونوں فوراً الگ ہو جائیں ، تین طلاقوں کے بعد جو دونوں ساتھ رہے ہیں ، اس پر  دونوں   خوب توبہ و استغفار کریں  ۔

مطلقہ بیوی شوہر سے الگ ہونے کے بعد   سے اپنی  عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل  نہ ہو اگر حمل  ہو تو بچہ کی پیدائش تک )گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

حاشیۃ ابن عابدین  ميں ہے :

"إن كان سكره بطريق محرم لايبطل تكليفه فتلزمه الأحكام وتصح عبارته من الطلاق و العتاق."

(مطلب في تعريف السكران وحكمه : 3 / 239 ، ط : سعید)

الدر المختار و حاشیۃ ابن عابدین  میں ہے:

"(و يقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) و لو تقديرًا، بدائع ، ليدخل السكران (ولو عبدًا أو مكرهًا) فإن طلاقه صحيح.

(قوله: فإن طلاقه صحيح) أي طلاق المكره."

(رکن الطلاق : 3 / 235 ، ط : سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كان ‌الطلاق‌ ثلاثا في الحرة و ثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا و يدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية."

(کتاب الطلاق ، الباب السادس في الرجعة وفيما تحل به المطلقة وما يتصل به ، فصل فيما تحل به المطلقة وما يتصل به : 473/1 ، ط : دار الفکر)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100475

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں