بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نشہ کی حالت میں الفاظِ کفر بولنے سے انسان کافر نہیں ہوتا


سوال

ایک شخص ہے، جس کی بیوی کا حمل ضائع ہوگیا تھا، جس کے سبب اس نے شراب کا نشہ کر لیا تھا،شراب پینے کی وجہ سے اس کی عقل زائل ہوگئی تھی،  اس شراب کے نشے میں اس نے چند ایسی باتیں کہی ہیں جن کے بارے میں شرعی حکم کا جاننا ضروری ہو گیا ہے (نقلِ کفر کفر نہ باشد)

1) نشے کی حالت میں واٹس ایپ گروپ میں دوستوں کے سامنے کہا:تم ملا لوگ بے غیرت ہو، تم لوگ دین کو دھندا بنا بیٹھے ہو اور ایک گالی بھی دی، تم ملاؤں کی بہن کو چودوں۔

2) نشے کی حالت میں واٹس ایپ گروپ میں دوستوں کے سامنے کہا: تم حدیث کو چھوڑو، یہ دین کا ڈھونگ بنا ہے، تمہیں کس نے کہا ملا بنو، صرف قرآن کو لازم پکڑو اور نماز پڑھو، شق نمبر1 والی گالی بہن کی وہ حدیث کو بھی دی۔

اب براہ مہربانی یہ بتا دیجیے کہ ایسے شخص کا کیا حکم ہے؟ جب کہ وہ شراب کے نشے سے ٹھیک حالت میں ہونے کے بعد اس نے توبہ کا اعلان بھی اسی گروپ میں کیا اور اپنی پریشانی بھی بتائی جو کہ وضعِ حمل کا رنج تھا۔

ایسے شخص کے نکاح کے بارے میں بھی بتا دیجئے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ شخص نے (شراب پینے کے بعد) نشہ کی حالت میں سوال میں مذکور الفاظ بولے ہیں تو اس صورت میں مذکورہ شخص دائرہِ اسلام سے خارج نہیں ہوا اور نہ ہی نکاح ٹوٹا ہے، تاہم شراب پینا خود ایک بہت بڑا  گناہ ہے اور مذکورہ الفاظ بھی کفریہ الفاظ ہیں، اس لیے آئندہ کے لیے شراب پینے اور اس طرح کے کفریہ الفاظ بولنے سے اجتناب کرنا نہایت ضروری ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"كذا لا تصح ردة السكران الذاهب العقل۔"

(الفتاوي الهندية، المجلد2، كتاب السير، الباب التاسع في احكام المرتدين، ص: 253، ط: المكتبة الرشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله وسكران) أي ولو من محرم لما في إحكامات الأشباه أن السكران من محرم كالصاحي إلا في ثلاث: الردة، والإقرار بالحدود الخالصة، والإشهاد على شهادة نفسه إلخ۔"

(الفتاوي الشامية بهامش الدر المختار، المجد 4، كتاب الجهاد، باب المرتد، ص: 224، ط: ايچ ايم سعيد)

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144305100447

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں