بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نسبی بھائی کی رضاعی بھانجی سے نکاح کرنے کا حکم


سوال

ایک لڑکا اپنے چاچا کے ساتھ ڈھائی سال کی عمر تک دادی کا دودھ پیتا رہا ، اور دودھ پینے والے لڑکے کا چھوٹا بھائی اپنی پھوپھی جو کہ اس کی رضاعی بہن ہوئی اسکی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنا چاہتا ہے جو کہ رضاعت کی نسبت سے اسکی بھانجی لگتی ہے یہ رشتہ جائز ہو گا یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ شرعا رضاعت (دودھ پینا)  کی وجہ سے تمام وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہیں (فقہائے کرام نے جو بعض رشتوں کا استثناء کیا ہے وہ حقیقت میں ایسے رشتے  نہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوں) ، اور یہ رشتہ صرف رضیع (دودھ پینے والا بچہ) اور مرضعہ (دودھ پلانے والی عورت) کے درمیان ثابت ہو جاتا ہے، ان کے دیگر رشتہ داروں (بہن،  بھائی وغیرہ) کے لیے ثابت نہیں ہوتا،  مثلا زید  و عمرو   باہم نسبی بھائی ہیں، زید کی ایک رضاعی بہن ہے،  تو یہ زید کی تو رضاعی بہن ہے لیکن عمرو کی بہن نہیں ہے؛ اس لیے زید کے لیے اس کے ساتھ بوجہ رضاعی بہن ہونے کے   نکاح  کرنا جائز نہیں ہے، لیکن عمرو کےلیے جائز ہے؛ کیوں کہ یہ نہ اس کی رضاعی بہن ہے اور نہ ہی نسبی،  جیسا کہ ’’الفقہ الاسلامی و ادلتہ‘‘ میں ہے:

"أما أخت الأخ من الرضاع فكأن يرضع طفل من امرأة، فيجوز لأخي هذا الطفل الذي لم يرضع أن يتزوج بنت هذه المرأة، وهي أخت أخيه من الرضاع."

’’ترجمہ:بہر حال (نسبی) بھائی کی رضاعی بہن ’’جیسا کہ ایک چھوٹا بچہ کسی عورت کا دودھ پی لے‘‘ تو اس (دودھ پینے والے)  بچے کے اس بھائی کےلیے جائز ہے جس نے اس عورت کا دودھ نہیں پیا کہ اس (دودھ پلانے والی)  عورت کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرے، جبکہ  یہ (لڑکی) اس کے بھائی کی رضاعی بہن ہے‘‘

(القسم السادس: الاحوال الشخصیہ،انواع المحرمات بالرضاع، ما یختلف فیہ حکم الرضاع عن حکم النسب، ج:9، ص:6635، ط:دار الفکر بیروت)

اس وضاحت کی رو سے صورتِ مسئولہ میں جس لڑکے نے اپنی دادی کا دودھ پیا ہے اس کے لیے تو جائز نہیں ہے کہ اپنی پھوپھی (جو اس کی رضاعی بہن بنتی ہے) کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرے؛ کیوں کہ یہ اس کی رضاعی بھانجی ہے، اور جس طرح نسبی بھانجی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے اسی طرح رضاعی بھانجی سے بھی نکاح کرنا جائز نہیں ہے، لیکن اس (دودھ پینے والے)  لڑکے کے بھائی (جس نے دادی کا  دودھ نہیں پیا) کے لیے اپنی پھوپھی کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنا جائز ہے؛ یہ لڑکی اس کی پھوپھی زاد ہے، رضاعی بھانجی نہیں ہے؛ کیوں کہ رضاعت کا رشتہ صرف دودھ پینے والے لڑکے کے لیے ثابت ہوا ہے اس کے بھائی کےلیے ثابت نہیں ہوا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(فيحرم منه) أي بسببه (ما يحرم من النسب) رواه الشيخان....(قوله ما يحرم من النسب) معناه أن الحرمة بسبب الرضاع معتبرة بحرمة النسب....(قوله رواه الشيخان) أشار به إلى أنه حديث، لكن فيه تغيير اقتضاه تركيب المتن وهو زيادة الفاء ووضع المضمر موضع الظاهر، وأصله: يحرم ‌من ‌الرضاع ‌ما يحرم من النسب."

(کتاب النکاح، باب الرضاع، ج:3، ص:3، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100860

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں