بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نسب تبدیل کرنے کا حکم/ نکاح میں غلط ولدیت کے ساتھ نام لینے کا حکم


سوال

ایک شخص جس کا نام مثلا زید بن جواد ہے،  اس کا شناختی کارڈ نہیں بن رہا ملکی قوانین کے تحت یا اس کے والدین اس ملک کے باشندے نہیں ہیں اور وہ اس ملک میں بھی نہیں ہیں، جہاں شناختی کارڈ بنانا چاہتاہے، تو کیا اسکے کارڈ پر کسی ایسے شخص کا جو اس کی قومیت کا بھی نہ ہو،  نہ ہی کوئی رشتہ دار ہو اور  اس کی زبان تک الگ ہو، ولدیت کا اندراج درست ہے؟ کیا ایسے شخص کا نکاح درست ہے جب کہ ایجاب و قبول میں بے اصل ولدیت کےساتھ حاضرین مجلس کے سامنےنام پکاراجائے؟

جواب

واضح رہے کہ حقیقی والد کی جگہ کسی اور کا نام لکھناناجائز اور حرام ہے، البتہ نکاح کے متعلق  یہ حکم ہے کہ اگر وہ شخص خود مجلس میں موجود ہو اور اس  کی طرف اشارہ کیا جائے، تو اگر چہ ولدیت بے اصل ہو، نکاح منعقد ہوجائے گا، لیکن اگر وہ شخص خود مجلس میں موجود نہ ہو بلکہ اس کا وکیل موجود ہو، تو اس صورت میں اصل ولدیت کے ساتھ نام لینا ضروری ہے، ورنہ نکاح منعقد نہیں ہوگا۔

نوٹ: ایک سوال ایک سے زائد مرتبہ بھیجنے سے اجتناب کریں۔

قرآن کریم میں ہے:

وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ ذَٰلِكُمْ قَوْلُكُم بِأَفْوَاهِكُمْ ۖ وَاللَّهُ يَقُولُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِي السَّبِيلَ (4) ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ  [الأحزاب: 4، 5]

مسند احمد میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من ادعى إلى غير أبيه لم يرح رائحة الجنة، وإن ريحها ليوجد من قدر سبعين عاما أو مسيرة سبعين عاما."

(ج:11، ص162، ط:مؤسسة الرسالة)

الدر المختار مع رد المحتار میں ہے:

"(غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح) للجهالة وكذا لو غلط في اسم بنته إلا إذا كانت حاضرة وأشار إليها فيصح."

وفي الرد تحته:

"(قوله: إلا إذا كانت حاضرة إلخ) راجع إلى المسألتين: أي فإنها لو كانت مشارا إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر لأن تعريف ‌الإشارة الحسية أقوى من ‌التسمية، لما في ‌التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو ‌التسمية عندها، كما لو قال اقتديت بزيد هذا فإذا هو عمرو فإنه يصح."

(كتاب النكاح، ج:3، ص:26، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144402100086

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں