بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

نسب میں طعن و تشنیع اور نوحہ سے متعلق ایک حدیث کی تشریح


سوال

برائے کرم  درج ذیل حدیث کی تشریح پیش کریں :

صحیح مسلم کی روایت ہے: نسب میں طعن و تشنیع اور مردوں پر نوحہ کفر کی باتیں ہیں ۔

جواب

مذکورہ حدیث  میں   تین باتیں ہیں :

  1. نسب میں طعن وتشنیع
  2. مردہ پر نوحہ خوانی
  3. اور ان دونوں کا کفر ہونا۔

نسب میں طعن و تشنیع سے مراد کے نسب کے بارے میں عیب لگانا ہے کہ تم  بہت معمولی یا گھٹیا  نسب والے ہو۔ 

"مجمع بحار الانوار "میں ہے:

"مِنْ طعن فيه وعليه بالقول، يطعن بالفتح والضم إذا عابه، ومنه الطعن في النسب".

(مجمع بحار الأنوار، محمد طاهر الفتني، ط: مكتبة دار الأيمان، الطبعة الثالثة، 1415ه-1994م، ج:3، ص: 451)

"نفع المسلم " میں ہے:

"نسب میں طعنہ دینا  یہ ہے کہ کسی کی ذات پر دھبہ لگانا کہ وہ شریف  خاندان کا نہیں ، یا یہ کہ اس کا خاندان شریفانہ نہیں ، یا کہ یہ لونڈی اور ولد الزنا ہے"۔

(نفع المسلم شرح صحیح مسلم ، افادات: مولانا اکرام علی صاحب بھاگلپوری ،ج:1، ص: 252)

مردہ پر نوحہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ: روتے ہوئے بلند آواز میں  میت کی خوبیوں اور اس کی  اچھی عادتوں  کو شمار کیا جائے.

ابن العربی فرماتے ہیں :"نوحہ سے مراد: زمانہ جاہلیت میں  عورتیں آمنے سامنے کھڑی ہوکر چیختی تھیں، اپنے سروں پر مٹی ڈالتی تھیں اور اپنے چہروں کو پیٹتی تھیں"۔

"النياحة: رفع الصوت بالندب وهو تعديد محاسن الميت وشمائله مع البكاء، كقوله: واكهفاه، واجبلاه، واسنداه، واكريماه، ونحوها، وهو حرام".

وقال ابن العربيّ رحمه الله تعالى: النوح: هو ما كانت الجاهليّة تفعله، كان النساء يَقِفن متقابلات يَصِحْنَ، وَيحْثين التراب على رؤوسهنّ، ويَضْربن وجوههنّ. انتهى."

(البحر المحيط الثجاج شرح صحيح الإمام مسلم بن الحجاج، محمد بن علي الإثيوبي، ط: دار ابن الجوزي، الطبعة الأولى، 1428ه، ج:2، ص: 462)

اس حدیث میں مذکور "کفر" کی شارحین نے متعدد توجیہات ذکر کی   ہیں:

  1.  اس کا مطلب یہ ہے کہ نسب پر طعن و تشنیع  کفار کا عمل ہے ، اور  مردہ پر نوحہ خوانی  دور جاہلیت کے اخلاق کا حصہ ہے۔
  2. یہ  دونوں عمل کفر تک لے جانے والے ہیں۔
  3. نعمت کی ناشکری ہے۔
  4. جو شخص یہ اعمال حلال سمجھ کر کرے گا تو اس کے لیے یہ وعید ہے کہ وہ کافر بن جائےگا۔

(المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، محيى الدين النووي، ط: المطبعة المصرية، 1347ه- 1929، ج:2، ص:57)

إكمال المعلم بفوائد مسلم میں ہے:

"وقوله: " اثنتان فى الناس هما كفرٌ: الطعن فى الأنساب، والنياحة على الميت ": أى من أعمال أهل الكفر وعادتهم وأخلاق الجاهلية، وهما خصلتان مذمومتان محرمتان فى الشرع، وقد كان النبى صلى الله عليه وسلم يأخذ على النساء فى بيعتهن ألا ينحن، وقال: " ليس منا من لطم الخدود، وشق الجيوب، ودعا بدعوى الجاهلية "، وكذلك نهى النبى صلى الله عليه وسلم عن السخرية واللمز والنبز والغيبة والقذف، وكل هذا من أعمال الجاهلية ، وقال النبى صلى الله عليه وسلم: " إن الله أذهب عنكم عُبيَّة الجاهلية … " الحديث، وقوله: {إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى ..}، فعَّرف نعمته بالأنساب للتعارف والتواصل، فمن تسوَّر على قطعها والغمض فيها، فقد كفر نعمة ربه وخالف مراده، وكذلك أمر تعالى بالصبر وأثنى على الصابرين ووعدهم رحمته وصلاته ووصفهم بهدايته، وحَتَم الموتَ على عباده، فمن أبدى السخط والكراهة لقضاء ربه وفعل ما نهاه عنه فقد كفر نعمته فيما أعدَّ للصابرين من ثوابه وتشبه بمن كفر من الجاهلية".

(إكمال المعلم بفوائد مسلم، عياض بن موسى، ط: دار الوفاء، الطبعة الأولى، 1419ه-1998م، ت: د. يحيى إسماعيل، ج: 1، ص: 326) 

٭الإفصاح عن معاني الصحاح" میں ہے:

"ومعنى تسمية رسول الله صلى الله عليه وسلم الخصلتين كفرا؛ فإن الكفر في أصل اللغة: معناه التغطية، وأن الطاعن في نسب إنسان فإنه يريد تغطية الحق في نسبه، فهو يكفر من هذه الجهة؛ وكذلك النياحة فإنها من قبيل التشنيع على القدر وإظهار التسخط لما كان من حكم الله، مع إعراض النائحة عن نعم الله تعالى البواقي، وعما يجب له سبحانه وتعالى من الصبر تسليما لحكمته وحسن نظره لعبده؛ فتكون النياحة كفرا من هذا الوجه".

(الإفصاح عن معاني الصحاح، العالم ابن هبيرة، ط: دار الوطن، الطبعة الأولى، ت: فؤاد عبدالمنعم أحمد، ج: 8، ص:64)

"كشف المشكل" میں ہے:

"اثنتان في الناس هما بهم كفر: ‌الطعن ‌في ‌النسب، والنياحة على الميت.

في المراد بالكفر وجهان: أحدهما: أن يكون كفر النعمة، فإن من طعن في نسب غيره فقد كفر بنعمة الله عليه بسلامته من ذلك الطعن، ومن ناح على ميت فقد كفر نعمة الله عليه إذ لم يكن هو الميت.

والثاني: أن يكون المعنى: أنهما من أفعال الكفار لا من خلال المسلمين".

(كشف المشكل من أحاديث الصحيحين، أبو الفرج ابن الجوزي، ط: دار الوطن، الطبعة الأولى، 1418ه-1997م، ت: د. علي حسين البوّاب، ج: 3، ص: 556)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503100773

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں