بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نس دبا کر انزال روکنے کی صورت میں غسل کا حکم


سوال

میں نے آپ کی ویب سائٹ پر پڑھا تھا کہ انزال نہ ہو تو غسل واجب نہیں ہوتا،تو میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی نَس دبا لے ،جس کی وجہ سے انزال نہ ہو،البتہ شہوت پوری ہوجائے،لیکن پھر کچھ دیر بعد پتلا پانی نکلے مذی کی طرح،تو کیا غسل واجب ہوگا؟

جواب

 صورتِ مسئولہ  میں اگر کوئی شخص جماع کے ذریعے شہوت پوری کرچکا ہے ،تو اس پر غسل لازم ہوجائے گا،چاہے اس نے نَس دبا کر منی کو کیوں نہ روک لیا ہو،البتہ اگر شہوت، جماع کے علاوہ کسی اور ناجائز طریقے (مثلا مشت زنی ) سے پوری کی ہو ،تو ایسی صورت میں نَس دبا کر منی روکنے سے غسل واجب نہیں ،اسی طرح اگر تھوڑی دیربعد  پتلاپانی نکلے اور یہ یقین ہو کہ یہ منی نہیں ہے ،بلکہ مذی ہے،تو ایسی صورت میں بھی غسل واجب نہیں ہوگا،البتہ اگر تھوڑی دیر بعد نکلنے والے پانی کے منی ہونے کا یقین ہو ،تو غسل واجب ہوجائے گا۔ 

بدائع الصنائع میں ہے:

"(أما) المجمع عليه فنوعان: أحدهما خروج المني عن شهوة دفقًا من غير إيلاج بأي سبب حصل الخروج كاللمس، والنظر، والاحتلام، حتى يجب الغسل بالإجماع لقوله صلى الله عليه وسلم: «الماء من الماء»، أي: الاغتسال من المني، ... والثاني إيلاج الفرج في الفرج في السبيل المعتاد سواء أنزل، أو لم ينزل لما روي أن الصحابة -رضي الله عنهم- لما اختلفوا في وجوب الغسل بالتقاء الختانين بعد النبي صلى الله عليه وسلم وكان المهاجرون يوجبون الغسل، والأنصار لا، بعثوا أبا موسى الأشعري إلى عائشة -رضي الله عنها- فقالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إذا التقى الختانان، وغابت الحشفة وجب الغسل أنزل، أو لم ينزل»، فعلت أنا ورسول الله صلى الله عليه وسلم. واغتسلنا فقد روت قولًا، وفعلًا. وروي عن علي -رضي الله عنه- أنه قال في الإكسال: يوجب الحد، أفلايوجب صاعًا من ماء!؛ ولأن إدخال الفرج في الفرج المعتاد من الإنسان سبب لنزول المني عادةً فيقام مقامه احتياطًا".  

(كتاب الطهارة، ج:1، ص:36، ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وفرض) الغسل (عند) خروج (مني) ‌من ‌العضو وإلا فلا يفرض اتفاقا؛ لأنه في حكم الباطن (منفصل عن مقره) هو صلب الرجل وترائب المرأة.

وفي الرد:(قوله: ‌من ‌العضو) هو ذكر الرجل وفرج المرأة الداخل احترازا عن خروجه من مقره ولم يخرج ‌من ‌العضو بأن بقي في قصبة الذكر أو الفرج الداخل، أما لو خرج من جرح في الخصية بعد انفصاله عن مقره بشهوة فالظاهر افتراض الغسل."

(كتاب الطهارة، ج:1، ص:159، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412101293

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں