بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نرینہ اولاد کے لیے میڈیسن کا استعمال/ کسی کا عقیقہ نہ ہوسکا ہو تو اب کیا حکم ہے؟


سوال

1- اولاد نرینہ کے لیے کسی قسم کی میڈیسن کھائی جا سکتی ہے یا نہیں؟ ہمارے قریب ایک امام مسجد ہیں جو اولاد نرینہ کے لیے میڈیسن دیتے ہیں مگر دعویٰ نہیں کرتے، کہتے ہیں ان شااللہ، اللہ کو منظور ہوا تو ہوجائے گا، کیا میڈیسن کھانا جائز ہے؟

2- میری وائف کا عقیقہ اس کے والدین نے نہیں کیا، تو اب عقیقہ کی ذمہ داری کس پر ہو گی شوہر پر یا والدین پر؟

جواب

1- نرینہ اولاد کے لیے محض علاج کی حد تک ایسی میڈیسن کا استعمال جائز ہے جن میں حرام اجزاء ملے ہوئے نہ ہوں۔ البتہ اولاد کی نعمت سے نوازنے والے اللہ تعالیٰ ہیں؛ لہذا ان چیزوں پر ہی کلی اعتماد کی بجائے اللہ تعالیٰ  سے رجوع رہنا چاہیے، اور دعا کی قبولیت کا یقین ہونا چاہیے، اولادِ نرینہ کے عدمِ حصول  پر ناشکری یا احساسِ کم تری کے جذبات ہرگز پیدا نہیں ہونے چاہییں۔ نرینہ اولاد کے حصول کے لیے چلتے پھرتے اور ہر نماز کے بعد سات مرتبہ درج ذیل دعا کا اہتمام بھی کرنا چاہیے:

{رَبِّ لاَ تَذَرْنِي فَرْدًا وَّ أَنْتَ خَيْرُ الْوَارِثِيْنَ}

2- صاحبِ استطاعت شخص کے لیے اپنی اولاد کا عقیقہ کرنا مسنون (مستحب) ہے، لیکن اگر کوئی شخص اپنی اولاد کا عقیقہ نہ کرسکے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ اگر آپ کی اہلیہ کے والدین نے ان کا عقیقہ نہیں کیا تو ان پر کوئی گناہ نہیں، اور اب ان کا عقیقہ کرنا نہ ان کے والدین پر لازم ہے نہ آپ پر۔ البتہ اگر استطاعت ہونے کی بنا پر آپ اپنی اہلیہ کی جانب سے عقیقہ کرنا چاہیں یا وہ خود کرنا چاہے تو اس کی اجازت ہے۔ البتہ اب اس عمر میں سر کے بال صاف کرنے کی حاجت نہیں۔

"عن الحسن البصري: إذا لم یُعقّ عنک، فعقِّ عن نفسک وإن کنت رجلاً ".

(إعلاء السنن، کتاب الذبائح ، باب أفضلیة ذبح الشاة في العقیقة ۱۷؍۱۲۱ إدارة القرآن کراچی)

"فنقل الرافعي أنه یدخل وقتها بالولادة … ثم قال: والاختیار أن لاتؤخر عن البلوغ، فإن أخرت عن البلوغ سقطت عمن کان یرید أن یعق عنه، لکن إن أراد أن یعق عن نفسه فعل".

(فتح الباري، کتاب العقیقة ، باب إماتة الأذی عن الصبي في العقیقة، ۹؍۵۹۴-۵۹۵ دار المعرفة بیروت)

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامديةمیں ہے:

" ووقتها بعد تمام الولادة إلى البلوغ، فلا يجزئ قبلها، وذبحها في اليوم السابع يسن، والأولى فعلها صدر النهار عند طلوع الشمس بعد وقت الكراهة ؛ للتبرك بالبكور".

( كتاب الشرب، ٢/ ٢١٣، دار المعرفة)

المنهاج القويم شرح المقدمة الحضرمية  لابن حجر الهيتمي میں ہے:

ووقتها من الولادة" بالنسبة للموسر عندها "إلى البلوغ" فإن أعسر نحو الأب في السبعة لم يؤمر بها إن أيسر بعد مدة النفاس وإلا أمر بها. "ثم" بعد البلوغ يسقط الطلب عن نحو الأب والأحسن حينئذ أنه "يعق عن نفسه" تداركًا لما فات وخبر أنه صلى الله عليه وسلم عق عن نفسه بعد النبوة باطل وإن رواه البيهقي."

( باب الأضحية، فصل: طفي العقيقة"، فصل: "في العقيقة" ، ص: ٣١٠، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200024

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں