بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ناراضگی کی وجہ سے طلاق ہوجاتی ہے؟


سوال

سات سال پہلے میری بیوی گھر سے چلی گئی ، اس دوران ہر طرح کے جتن کئے،جرگے بھیجے ،مصالحتی کمیٹی کے ذریعے کوشش کی مگر اس نے واپسی سے صاف انکار کر دیا، بلکہ بزریعہ کورٹ اپنا تمام جھیز بھی لے گئی اور چھوٹے دو بیٹے،میں نے آج تک طلاق نہیں دی ،اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ ہے ، ان حالات اور اتنا عرصہ گزرنے کے بعد ہماری ازدواجی زندگی کی کیا حیثیت ہے؟ کیا اتنا عرصہ ناراضگی کے بعدہمارا نکاح باطل تو  نہیں ہو گیا؟ 

جواب

میاں بیوی  علیحدہ رہنے  سے خواہ وہ طویل عرصہ ہی کیوں نہ ہو ، دونوں کا نکاح ختم نہیں ہوتا، بلکہ نکاح ختم ہونے  کے لیے شوہر  کی طرف سے طلاق، یا باہمی رضامندی سے خلع، یا نکاح فسخ ہونے کے اسباب کی موجودگی میں فسخ نکاح کا پایا جانا ضروری ہے،جب تک شوہر زبانی یا تحریری طلاق نہ دے  اس وقت تک طلاق واقع نہیں   ہوتی۔لهذا صورتِ مسئولہ ميں اگر سائل نے واقعۃً طلاق نہیں دی تو محض ناراضگی  اور طویل عرصہ جدا رہنے کی وجہ سے نکاح شرعاً ختم نہیں ہوا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي."

(كتاب الطلاق،ركن الطلاق،ص:230،ج:3،ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں