بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ناراض والدہ انتقال کرجائیں تو اپنی معافی کے لیے کیا کیا جائے؟ نیز خودکشی کا حکم


سوال

مجھ  سے ایک غلطی سرزد ہوئی تھی، والدیں سخت ناراض تھے، امی وفات پا گئیں ناراضگی میں ہی، میں ان کے لیے ایصالِ ثواب  کرتی ہوں کہ ان کی روح مجھ سے خوش ہو  اور ابو معافی کے باوجود معاف نہیں کرتے،  کہتے ہیں میری اولاد میرے سامنے نہ آئے اور مجھ پر سے اخراجات کا ہاتھ بھی روک دیا ہے، میرے  لیے کیا حکم ہے؟  میرا اذیت سے خودکشی کو دل چاہ رہا ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں آپ اپنے والدین کے لیے دعائے مغفرت کرتی رہیں، اور والد صاحب سے جب بھی موقع ملے معافی مانگتی رہیں، پس اگر وہ اپنی زندگی میں راضی ہوجائیں تو بہتر ہے، اگر وہ معافی مانگنے کے باوجود نا راض ہی رہیں، تو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ وہ آخرت میں مذکورہ نافرمانی پر پکڑ نہیں فرمائے گا۔ نیز والدہ کے دنیا سے جانے کے بعد اگر خالہ موجود ہیں تو ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ رکھیں، اور والدہ کے لیے جتنا ہوسکے ایصالِ ثواب کرتی رہیں، اگر صدقہ جاریہ دے سکیں (مثلاً: کنواں وغیرہ کھدوا دیں) تو بہتر ہوگا۔

جہاں تک ان حالات سے مایوس ہوکر خود کشی کا اقدام ہے تو یہ کسی طرح بھی سمجھ داری کی بات نہیں ہے، خود کشی حرام ہے، احادیث میں سخت وعیدات آئی ہیں، دنیا کی وقتی پریشانی سے چھٹکارے کے لیے آخرت کا عذاب مول لینا نہایت کم عقلی ہے، لہذا اس خیال پر اللہ سے صدقِ دل سے توبہ کریں اور آئندہ ہرگز ایسا خیال بھی دل میں نہ لائیں۔

مشکاة المصابیح، کتاب الآداب، باب البر والصلة، الفصل الثالث، (ص:421) ط: قدیمي کراچي:

"عن أنس قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: إن العبد لیموت والداه أو أحدهما و إنه لهما لعاق، فلایزال یدعو لهما ویستغفر لهما، حتی یکتبه الله بارًّا". (رواه البیهقي في شعب الإیمان)

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بے شک (بعض اوقات کسی) بندے کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک اس حال میں مرجاتے ہیں کہ وہ ان کا نافرمان ہوتاہے، چناں چہ وہ ان دونوں کے لیے دعا اور استغفار کرتا رہتاہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسے فرماں بردار لکھ دیتے ہیں۔

"عن أبي هریرة قال: قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: من تردی من جبل فقتل نفسه، فهو في جهنم یتردی فیها خالداً مخلداً فیها أبداً، ومن تحسا سماً فقتل نفسه فسمه في یده یتحساه في نار جهنم خالداً مخلداً فیها أبداً، ومن قتل نفسه بحدیدة فحدیدته في یده یتوجأء بها في بطنه في نار جهنم خالداً مخلداً فیها أبداً. متفق علیه". (مشکاة ،ج٢ص٢٩٩)

ترجمہ:حضرت  ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرمایا  رسول اللہ ۖ نے:  جو شخص خود کو پہاڑ سے گراکر ہلاک کرے گا تو وہ جہنم کی آگ میں خود کو پہاڑ  سے گراکر ہلاک کرتا رہے گا اور یہ سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ چلے گا، اور جس نے زہر کھاکر خود کو مار ڈالا تو اس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا جہنم کی آگ میں اور ہمیشہ ہمیشہ رہ کر ایسا ہی کرتا رہے گا اور جس نے دھاری دار تیز  چیز سے اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالا تو وہ چیز اس کے ہاتھ میں ہوگی جہنم کی آگ میں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ ایسا ہی کرتا رہے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202407

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں