بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نعرہ تکبیر، رسالت اور حیدری کا حکم


سوال

اسلام میں نعرے لگانا درست ہے یا نہیں؟ جیسے (نعرۂ تکبیر اللہ اکبر) کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو کیا اسی طرح (نعرۂ رسالت یا رسول اللہ) یا (نعرۂ حیدری یا علی) کا نعرہ لگانا بھی درست ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی نعرے کے شرعاً درست ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ:

(الف) جس نعرہ میں کسی خلافِ شرع بات کی تائید نہ ہوتی ہو، تعصب، قوم پرستی پر مشتمل نہ ہو، اس سے فتنہ پھیلنے کا اندیشہ نہ ہو اور نہ اس کے ناجائز ہونے کی اس میں کوئی اور  وجہ پائی جاتی ہو تو ایسا نعرہ فی نفسہ جائز ہے۔

(ب) اور اگر ایسا نعرہ ہو کہ اس سے کسی خلافِ شرع بات کی تائید ہوتی ہو یا تعصب، قوم پرستی پر مشتمل ہو یا اس سے فتنہ پھیلنے کا اندیشہ ہو یا اس کے علاوہ اس میں ناجائز ہونے کی کوئی اور وجہ پائی جاتی ہو تو ایسا نعرہ درست نہیں اور ایسے نعروں سے اجتناب لازم ہے۔

ذکر کردہ تفصیل کی رو سے سوال میں پوچھے گئے نعروں کا جواب ملاحظہ فرمائیں:

نعرۂ تکبیر اللہ اکبر: یہ نعرہ لگانا جائز ہے، اس میں شرعاً کوئی خرابی نہیں ہے، احادیث سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ نعرہ مختلف غزوات کے موقع پر لگایا ہے، اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر صحابۂ کرام نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ہے، لہٰذا یہ نعرہ لگانا جائز ہے۔

نعرۂ رسالت یا رسول اللہ اور نعرۂ حیدری یا علی؛  یہ نعرہ لگانا اس لیے جائز نہیں کہ اس میں عقیدہ کی خرابی کا پہلو ہے، شریعت میں بھی اس کی کوئی اصل نہیں ہے، نیز اگر کوئی صحیح عقیدہ رکھتے ہوئے بھی یہ نعرے لگاتا ہے تو بھی اس میں عقیدہ کی خرابی کا شبہ ہوتا ہے اور غلط عقائد کے حامل لوگوں کی تائید ہوتی ہے، اس لیے اس جیسے نعروں کے لگانے سے اجتناب کیا جائے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"3647- حدثنا علي بن عبد الله حدثنا سفيان حدثنا أيوب عن محمد سمعت أنس بن مالك رضي الله عنه يقول: صبح رسول الله صلى الله عليه وسلم خيبر بكرة وقد خرجوا بالمساحي، فلما رأوه قالوا: محمد والخميس وأحالوا إلى الحصن يسعون، فرفع النبي صلى الله عليه وسلم يديه وقال: الله أكبر، خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين."

(ج:4، ص:208، کتاب المناقب، باب، ط:السلطانیة)

مسندِ بزار میں ہے:

"فأخذ رجلان بعضدي حتى دنوت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أرسلوه»، فأرسلوني، فجلست بين يديه، فأخذ بمجامع قميصي ثم قال: «أسلم يا ابن الخطاب، اللهم اهده» فقلت: أشهد أن لا إله إلا الله وأنك رسول الله، قال: فكبر المسلمون تكبيرة سمعت في طرق مكة."

(ج:1، ص:400، ‌‌‌‌مسند عمر بن الخطاب رضي الله عنه، أسلم مولى عمر عن عمر، ط:مكتبة العلوم والحكم)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307101030

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں