نقش پا رکھنا جائز ہے یا نہیں ؟
آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی استعمال کردہ اشیاء، جیسے نعل مبارک، کپڑے، عمامہ ، چادر وغیرہ، خیر و برکت کا باعث ہیں، اور ان کے باعث خیر و برکت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، کیوں کہ ان اشیاء کی نسبت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قائم ہوچکی، تاہم یہ ان اشیاء کے ساتھ خاص ہے جو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود استعمال فرمائی ہوں، لیکن وہ اشیاء جوواقعۃ اس طرز پر بنائی گئی ہوں، ان کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر ان کو اصل کا ہی درجہ دیا جائے اور اصل کی طرح ہی ان سے تبرک کے حصول کو درست قرار دیا جائے، تو یہ قطعاً درست نہیں ہے اور بہت سے مفاسد کا ذریعہ ہے البتہ اگر کوئی دین کا حصہ سمجھے بغیر عشق و محبت اور ادب و احترام میں ان سے تبرک و توسل کا قائل ہو ، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔تاہم یہ بات ملحوظ رہے کہ تصویر اور شبیہ کا حکم پھر بھی وہ نہیں ہوگا جو اصل کا ہے۔
فتاوی رحیمیہ میں ہے:
"بے شک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال شدہ مبارک کپڑے، پیراہن شریف تہبند شریف، جبہ شریف، موئے مبارک وغیرہ یہ تمام چیزیں بڑی بابرکت اور قابلِ تعظیم اور لائق زیارت ہیں۔ ان کو عظمت اور محبت اور حسن عقیدت سے چومنا، سر پر رکھنا، بڑی سعادت اور دعاء کی قبولیت کے لیے بہت مؤثر ہے اور تعاملِ صحابہ سے بھی ثابت ہے۔
اور حضرت مولانا خلیل احمد مہاجر مدنی ؒ لکھتے ہیں: آنحضرت صلی وللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی مٹی کا وہ حصہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر اور مبارک اعضاء کے ساتھ ملحق ہے وہ کعبہ شریف اور عرش اور کرسی سے بھی افضل ہے۔
مگر یہ فضیلت اصلی آثار اور سندی تبرکات کی ہیں۔ نقلی نقشے اور تصاویر کا یہ حکم نہیں۔ اور صحابہ کے عمل سے بھی ثابت نہیں۔ "
(فتاوی رحیمیہ، کتاب الایمان والعقائد، ج:1، ص:67، ط:دار الاشاعت)
کفایت المفتی میں ہے:
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آثارِ متبرکہ طیبہ سے برکت حاصل کرنا تو علماء متقدمین اور صحابہ اور تابعین سے ثابت ہے، لیکن آثار و اشیاء متبرکہ سے مراد یہ ہے کہ ان چیزوں کے متعلق یہ بات ثابت ہو کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی استعمال کی ہوئی اشیاء (مثل جبہ مبارک یا قمیص مبارک یا نعل مبارک) یا حضور کے (مثل اس خاص پتھر کے جس پر قدم مبارک رکھنے سے نشان قدم بن گیا ہو) لیکن ان میں سے کسی چیز کی تصویر بنا کر اس سے برکت حاصل کرنے کا معتمد اہلِ علم و ارباب تحقیق سے ثبوت نہیں۔
اگر تصویر سے تبرک حاصل کرنا بھی صحیح ہو، تو پھر نعل مبارک کی کوئی تخصیص نہ ہوگی بلکہ جبہ مبارک، قمیص شریف، موئے مبارک اور قدم شریف کی کاغذ پر تصویر بنانے اور ان سے تبرک و توسل کرنے کا حکم اور نقشہ نعل مبارک سے تبرک و توسل کا حکم ایک ہوگا اور ایک ماہر بالشریعۃ اور ماہر نفسیات اہل زمانہ اس کے نتائج سے بے خبر نہیں رہ سکتا، جن بزرگوں نے نعل مبارک کے نقش کو سر پر رکھا ، بوسہ دیا، اس سے توسل کیا وہ ان کے وجدانی اور انتہائے محبت بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اضطراری افعال ہیں، ان کو تعمیم حکم اور تشریع للناس کے موقع پر استعمال کرنا صحیح نہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہر حال تصویر کو اصل کا منصب دینا اور اس کے ساتھ اصل کا معاملہ کرنا احکامِ شرعیہ سے ثابت نہیں، اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نعل مبارک جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک سے مس کر چکی ہو، کسی کو مل جائے، تو زہے سعادت اس کو بوسہ دینا، سر پر رکھنا، سب صحیح مگر نعل کی تصویر اور وہ بھی ایسی تصویر جس کی اصل سے مطابقت کی بھی کوئی دلیل نہیں، اصل نعل مبارک کے قائم مقام نہیں ہوسکتی۔"
(کفایت المفتی، کتاب السلوک والطریقۃ، ج:2، ص:89،90،91، دار الاشاعت)
امداد الفتاوی میں ہے:
اگر دین اور عبادت سمجھ کر ایسا کیا جاوے، تب تو بدعت ہے کیوں کہ اس کی کوئی دلیل وارد نہیں اور اگر ادب و شوق طبعی سے کیا جاوے، تو کوئی حرنج نہیں، ایسے امور طبعیہ کے جواز کے لیے دلیل کی ضرورت نہیِ خلافِ دلیل نہ ہونا کافی ہے اور جو سلف سے اس کی نظیر منقول ہے، اس کا محمل یہیی ادب و حب طبعی ہے، جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
"و لا مسست ذكري بيمني منذ بايعت بها رسول الله - صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رواه ابن ماجة في باب كراهة "الذكر باليمين"
ظاہر ہے کہ یہ رعایت بنا بر حکم شرعی نہیں، ورنہ ثوب نجس کا دلک یا عصر بھی یمین سے جائز نہ ہوتا اور جیسے قاضٰ عیاضؒ نے عبد الرحمٰن سلمی سے احمد بن فضلویہ زاہد غازی کا قول نقل کیا ہے:
ما مسست القوس بيدي إلا على طهارة منذ بلغني أن النبي صلى الله عليه وسلم أخذ القوس بيده، من فتاوى العلامة عبد الحي، ص:323۔
ظاہر ہے کہ مبنی اس کا بجز دونوں قوس میں تشابہ ہونے کے اور کیا تھا اور اس تقریر سے امداد الفتاوی و زاد السعید کا تعارض بھی مرتفع ہوگیا جو سوال سادس میں سائل نے لکھا ہےکہ اول میں حکم شرعی کا بیان ہے اور ثانی میں شوق طبعی کا۔"
(امداد الفتاوی، ج:4، ص:535، ط:مکتبہ دار العلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608101484
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن