بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رہن سے متعلق دو صورتوں کا حکم


سوال

 میری سونے کی دکان ہے، ہمارے پاس بعض دفعہ ایسے لوگ آتے ہیں جن کو نقد پیسوں کی ضرورت ہو تی ہے، تو وہ ہم سے پیسے  لیتے ہیں اور ان پیسوں کے بدلے میں کوئی سونے کی چیز رکھتے ہیں اوروہ چیز پیسوں کے بقدر قیمتی ہوتی ہے۔اگر وہ بندہ مقررہ تاریخ تک ہمارے پیسے نہیں لوٹا تاتو ان کا یہ کہنا ہوتا ہے کہ آپ کے پاس جو چیز ہم نے رکھی ہے وہ آپ بیچ دیں  جتنی کی بھی بک  جاۓ۔

اور دوسرا آپشن قرض خواہ کے لیے  یہ بھی ہوتا ہے کہ مقررہ تاریخ پے اگر وہ اپنی رہن رکھی چیز واپس لینا چاہے تو وہ زیادہ قیمت میں خریدے گا،چوں کہ ہم نے ان کو نقد رقم دی ہوتی ہے ہمارے پیسے ان کے پاس بند ہوتے ہیں ہم ان سے کوئی کاروبار نہیں کر سکتے اور دوسری طرف مقروض کی رکھی ہوئی چیز کی حفاظت بھی ہم نے کرنی ہوتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ مسئولہ دونوں صورتیں درست  ہیں کہ نہیں ؟میرے لیے ان زیادہ پیسوں کو لینا جائز ہے کہ نہیں؟ دلائل سے وضاحت کیجیے گا!

جواب

واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کسی سے قرض لے تو قرض دینے والا بطورِ ضمانت  قرض دار سے کوئی قیمتی چیز لے کر اپنے قبضے میں رکھتا ہے کہ اگر قرض دار قرض  ادا  نہ کرسکے تو اس قیمتی چیز سے قرض کی رقم کی ادائیگی کا انتظام کیا جاسکےشرعاً یہ رہن کہلاتا ہے ،اور اس کا حکم یہ ہے کہ رہن میں رکھی جانے والی چیز  کی حیثیت محض ضمانت کی ہوتی ہے، اور رہن میں رکھے جانے کے بعد بھی رہن (گروی) رکھی ہوئی چیز  اس کے اصل مالک کی ہی ملک رہتی ہے؛ البتہ قبضہ مرتہن (جس کے پاس گروی رکھی ہوئی ہے) کا ہوتا ہے۔

صورت ِ مسئولہ میں سائل کا قرض کے بدلہ میں قیمتی چیز  ضمانت کے طور پر لینا   کہ اگر مدیون قرض ادا نہیں کرے گا تو سائل اس چیز کو بیچ کر اپنا حق وصول کرے گا، اس طرح کا عمل شرعًا جائز ہے، البتہ اس میں یہ بات ملحوظ رہے کہ اگر مرہونہ  چیز کی قیمت زیادہ ہو تو مرتہن پر  اپنا حق وصول کرنے کے بعد زائد قیمت راہن کو واپس کرنا ضروری ہے۔

دوسری صورت کہ راہن مرتہن  سے مقررہ تاریخ پر اپنی رہن رکھی ہوئی چیز زیادہ قیمت پر خریدے گا یہ صورت شرعًا جائز نہیں ؛اس لیے کہ یہ چیز تو پہلے سے ہی اس کی ملکیت میں ہے ،صرف قبضہ  مرتہن کا ہے ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"أما تفسيره شرعا فجعل الشيء محبوسا بحق يمكن استيفاؤه من الرهن كالديون".

(کتاب الرہن ،الباب الاول فی تفسیر الرہن،ج:5،ص:434،دارالفکر)

البنایہ شرح الہدایہ میں ہے :

"‌إذا ‌باع ‌المرتهن ‌الرهن بإذن الراهن يرد المرتهن، ما زاد على الدين ولو كان الدين زائدا على الثمن يرد الراهن زيادة الدين، وحملناه على البيع ".

(کتاب الرہن ،ج:12،ص:482،دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101819

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں