بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نقدی، پلاٹ، ایک بھینس اور ایک گائے کی زکوۃ کا حکم


سوال

میرے پاس نقد رقم پانچ لاکھ اور ایک پلاٹ جو کہ میں نے اس نیت سے خریدا ہوا ہے کہ جب قیمت بڑھے گی تو میں اس کو بیچ کر اس پر نفع کماؤں گا، وہ ہے اور ایک دکان ہے جس کا میں کرایہ لیتا ہوں، اب اور ایک میرے پاس گائے ہے اور ایک بھینس ہے، تو اب زکوۃ دینے کے لیے ان ساری چیزوں کو جمع کرنا پڑے گا؟ ان ساری چیزوں کی مالیت جمع کرنی پڑے گی؟ یا پھر جانوروں پر جانور کا نصاب لاگو ہوگا اور پلاٹ اور دکان کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں نقدی رقم اور بیچنے کی نیت سے خریدے گئے پلاٹ کا حکم یہ ہے کہ ان دونوں کی مالیت کو جمع کر کے اس کا ڈھائی فیصد زکوۃ کی مد میں ادا کیا جائے گا۔

کرایہ پر دی ہوئی دکان کی مالیت پر زکوۃ لازم نہیں ہوتی، البتہ زکوۃ کے حساب کے دن کرایہ کی جو رقم آپ کے پاس محفوظ ہو گی اس کی زکوۃ ادا کرنا لازم ہو گا۔

پھر سوال میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ گائے اور بھینس  فروخت کرنے کی نیت سے خریدی گئی ہیں یا دودھ حاصل کرنے کی نیت سے یا نسل چلانے کی نیت سے، اگر  فروخت کرنے کی نیت سے خریدی گئی ہیں تو اس کی قیمت کو بھی دیگر اموالِ زکوۃ کے ساتھ ملایا جائے گا اور اس کی زکوۃ ادا کی جائے گی، اور اگر مقصد دودھ حاصل کرنا یا ان کی نسل چلانا ہو تو ایک گائے اور ایک بھینس پر زکوۃ لازم نہیں۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنة ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابا من الورق والذهب كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة كذا في التبيين وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة كذا في المضمرات ثم في تقويم عروض التجارة التخيير يقوم بأيهما شاء من الدراهم والدنانير إلا إذا كانت لا تبلغ بأحدهما نصابا فحينئذ تعين التقويم بما يبلغ نصابا هكذا في البحر الرائق."

( کتاب الزکاۃ، فصل فی عروض التجارۃ، جلد:1 صفحہ:179،  طبع: دار الفکر)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"تجب الزكاة في ذكورها، وإناثها، ومختلطهما والسائمة هي التي تسام في البراري لقصد الدر والنسل والزيادة في السمن والثمن حتى لو أسيمت للحمل والركوب لا للدر والنسل فلا زكاة فيها كذا في محيط السرخسي ...  ليس في أقل من ثلاثين من البقر صدقة فإذا كانت ثلاثين سائمةً ففيها تبيع أو تبيعة."

(کتاب الزکوۃ، جلد:1، صفحہ: 176، طبع: دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101821

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں