اگر کسی پر زکوة واجب ہے، لیکن زکوة دینے کے لیے نقدی پیسے نہیں ہے، تو اس صورت میں بندہ قرض لے سکتا ہے؟
بصورتِ مسئولہ اصل تو یہی ہے کہ زکات کانصاب جس جنس سے (یعنی سونے سے، چاندی سے) پورا ہے اس جنس کا چالیسواں حصہ (یعنی ڈھائی فی صد تولہ سونا) بطورِ زکات نکالا جائے۔ البتہ شریعت نے یہ اختیار بھی دیا ہے کہ مقررہ جنس (سونے یا چاندی) میں سے زکات دینے کے بجائے اس مقدار کے بدلے اس کی قیمت یا اس قیمت سے کچھ خرید کر بھی مستحق کو دیا جاسکتاہے، لہٰذا پہلی صورت تو یہ ہے کہ موجودہ سونے چاندی میں سےڈھائی فیصد وزن کرواکر زکات میں ادا کردے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اتنے سونے یا چاندی کو فروخت کرکے اس کی قیمت ادا کردے۔ اور اگر سونا نہیں بیچنا چاہتا اور زکات کی ادائیگی کے لیے رقم بھی نہیں ہے تو زکات میں واجب مقدار کسی سے قرض لے کر زکات ادا کردے، اس سے بھی زکات ادا ہوجائے گی۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ اگر جلد رقم آنے کی توقع ہے تو جس دن زکات کا سال مکمل ہو اس دن واجب زکات کی مقدار نوٹ کرلے، اور جیسے جیسے رقم آتی رہے جتنا جلدی ہوسکے زکات ادا کردے، بلاوجہ بالکل تاخیر نہ کرے، اگر زکات کا آئندہ سال آنے تک مؤخر کردیا تو گناہ گار ہوگا۔
فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية ) میں ہے:
"وَلَوْ فَضَلَ مِنْ النِّصَابَيْنِ أَقَلُّ مِنْ أَرْبَعَةِ مَثَاقِيلَ، وَأَقَلُّ مِنْ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا فَإِنَّهُ تُضَمُّ إحْدَى الزِّيَادَتَيْنِ إلَى الْأُخْرَى حَتَّى يُتِمَّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا أَوْ أَرْبَعَةَ مَثَاقِيلَ ذَهَبًا كَذَا فِي الْمُضْمَرَاتِ. وَلَوْ ضَمَّ أَحَدَ النِّصَابَيْنِ إلَى الْأُخْرَى حَتَّى يُؤَدِّيَ كُلَّهُ مِنْ الذَّهَبِ أَوْ مِنْ الْفِضَّةِ لَا بَأْسَ بِهِ لَكِنْ يَجِبُ أَنْ يَكُونَ التَّقْوِيمُ بِمَا هُوَ أَنْفَعُ لِلْفُقَرَاءِ قَدْرًا وَرَوَاجًا
الزَّكَاةُ وَاجِبَةٌ فِي عُرُوضِ التِّجَارَةِ كَائِنَةً مَا كَانَتْ إذَا بَلَغَتْ قِيمَتُهَا نِصَابًا مِنْ الْوَرِقِ وَالذَّهَبِ كَذَا فِي الْهِدَايَةِ."
(الفصل الاول والثانى فى زكوة الذهب والفضة والعروض، ج:1، ص:179، ط:ايج ايم سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144209200059
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن