بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نقل کروانے کے لیے طلبہ سے رقم جمع کرنا اور پھر اس رقم سے امتحانی عملے کے لیے دعوت کرانے کا حکم


سوال

میٹرک امتحانات کے لیے ٹیچرز  طلبہ سے پیسے لیتے ہیں،  پھر ان پیسوں سے جو امتحانی عملہ آتا ہے،  ان کے لیے کھانے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں،  ساتھ خود بھی اس کھانے میں شریک ہوتے ہیں،  کھانا کھلانے کا مقصد امتحان میں نقل کرنا ہوتا ہے؛ تاکہ عملہ سختی نہ کرے، تو  طلبہ سے نقل کے لیے پیسہ جمع کرنا کیسا ہے؟ اور اسی پیسوں سے کھانا کھانا کیا حرام ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سکول انتظامیہ   طلبہ سے جو پیسہ جمع کرتی ہے اور پھر اس رقم سے امتحانی عملہ کے  لیے کھانے پینے کا انتظام کرتی ہے، تو اگر واقعۃً اس کا مقصد امتحان ہال میں  طلبہ کے لیے نقل یا نقل میں نرمی کرنا ہے، تو سکول انتظامیہ کی طرف سے مذکورہ دعوت رشوت ہے، اور مختلف احادیث میں رشوت لینے اور دینے والے کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہے، لہذا مذکورہ غرض کے  لیے طلبہ سے پیسہ جمع کرنااور ان  پیسوں سے دعوت کھانا رشوت ہونے کی بنا  پر حرام ہے۔ 

مدارك التنزيل وحقائق التأويل(تفسير النسفي) میں ہے:

"وَأَخْذِهِمُ الرِّبَا وَقَدْ نُهُوا عَنْهُ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا (161)

{وَأَخْذِهِمُ الربا وَقَدْ نُهُواْ عَنْهُ} كان الربا محرماً عليهم كما حرم علينا وكانوا يتعاطونه {وَأَكْلِهِمْ أموال الناس بالباطل} بالرشوة وسائر الوجوه المحرمة."

(سورۃ آلِ عمران، رقم الآیۃ:161، ج:1، ص:161، ط:دارالکلم الطیب)

أحكام القرآن للجصاص میں ہے:

"قال الله تعالى: {سماعون للكذب أكالون للسحت}....

 وقال إبراهيم والحسن ومجاهد وقتادة والضحاك: "السحت الرشا". وروى منصور عن الحكم عن أبي وائل عن مسروق قال: "إن القاضي إذا أخذ الهدية فقد أكل السحت, وإذا أكل الرشوة بلغت به الكفر". وقال الأعمش عن خيثمة عن عمر قال: "بابان من السحت يأكلهما الناس: الرشا ومهر الزانية". وروى إسماعيل بن زكريا عن إسماعيل بن مسلم عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "هدايا الأمراء من السحت". وروى أبو إدريس الخولاني عن ثوبان قال: "لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي والرائش الذي يمشي بينهما". وروى أبو سلمة بن عبد الرحمن عن عبد الله بن عمر قال: "لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي".

قال أبو بكر: اتفق جميع المتأولين لهذه الآية على أن قبول الرشا محرم, واتفقوا على أنه من السحت الذي حرمه الله تعالى.

والرشوة تنقسم إلى وجوه: منها الرشوة في الحكم, وذلك محرم على الراشي والمرتشي جميعا, وهو الذي قال فيه النبي صلى الله عليه وسلم: "لعن الله الراشي والمرتشي" والرائش وهو الذي يمشي بينهما فذلك لا يخلو من أن يرشوه ليقضي له بحقه أو بما ليس بحق له, فإن رشاه ليقضي له بحقه فقد فسق الحاكم بقبول الرشوة على أن يقضي له بما هو فرض عليه, واستحق الراشي الذم حين حاكم إليه وليس بحاكم, ولا ينفذ حكمه; لأنه قد انعزل عن الحكم بأخذه الرشوة."

(باب الرشوۃ، ج:2، ص:541، ط:دارالکتب العلمیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100736

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں