بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نقل کرکے حاصل کی گئی ملازمت کا حکم


سوال

گزشتہ سال خیبر پختون خواہ میں اسکولوں میں اساتذہ کی بھرتیوں کا ٹیسٹ تھا، اس سے پہلے بھی ٹسٹ ہو چکے ہیں، مگر حکومت اور منعقد کرنے والے اداروں کی وجہ سے اکثر من پسند لوگ ہی بھرتی ہو رہے تھے، میں نے اس کے لیے تیاری بہت کی، اور ایک سال سے زیادہ تک اس کی تیاری کرتا رہا،  اور ہمارے یونین کونسل میں نوکریوں کی تعداد بھی باقی جگہوں سے زیادہ تھی، اب ٹیسٹ کا دن قریب ہوا، تو میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ اس بار بھی یہ خریدوفرحت والی کہانیاں ہیں،  تو میں نے ٹیسٹ دیا، مگر ایک دوست نے موبائل پر سارے جوابات باھر سے بتا دیئے، اور کچھ اپنی طرف سے کیے، اب میرا سلیکشن ہو گیا ہے، میں نے ماسٹرز تک تعلیم کی ہے، د س سال کا تجربہ بھی ہے، اور اسکول میرے قریب بھی ہیں، اور دوسرے لوگوں کی بنسبت میں چھٹی بھی نہیں کرتا، اور مہنت بھی زیادہ کرتا ہوں، اب میں پریشان ہو کہ میں نے یہ غلط کیا ہے، مگر اب اگر میں استعفاء بھی دے دوں، تو کوئی اور اس پر بھرتی نہیں ہو سکتا، اور یہ اس علاقے کے ساتھ ظلم بھی ہے، کیوں کہ یہاں تعلیم کی شرح بالکل نہیں ہے، اور سارے اساتذہ دور دراز علاقوں سے آتے ہیں، اس لیے وہ چٹھیاں بہت کرتے ہیں، اور توجہ بھی نہیں دیتے، اب آپ مجھے کوئی حل بتائیں کہ میں کیا کروں؟ میں پریشان ہوں، رات کو اس ڈر سے نیند نہیں آتی، اپنے طلبا کے ساتھ بہت مہنت کرتا ہوں، مگر اللہ پاک کاڈر ہے کہ قیامت کے دن کیا ہوگا؟مہربانی کرے اپ کوئی جواب دی دیں۔

جواب

واضح رہے کہ امتحانات میں نقل کرنا  جھوٹ، خیانت، دھوکا دہی، فریب اور حق داروں کی  حق تلفی جیسے گناہوں پر مشتمل ہونے  کی وجہ سے ناجائز ہے، لہذا  امتحانات میں نقل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔اس پر توبہ واستغفار کرنالازم ہے۔

باقی صورتِ مسئولہ میں سائل نے نقل کی بنیاد پر  جو امتحان پاس کروایا ہے، اور اس کی بنیاد پر   ملازمت کرکے   جو تنخواہ  وصول کررہا ہے،  اس کے  حلال یا حرام ہونے سے متعلق  یہ ضابطہ ہے کہ اگر سائل   متعلقہ ملازمت اور نوکری کی صلاحیت رکھتا  ہے،  اور اس کے تمام امور دیانت داری کے ساتھ انجام دیتا  ہے (یعنی مطلوبہ وقت دینے کے ساتھ ساتھ وہ ذمہ داری اسی معیار کے مطابق ادا کرے جو اس منصب کے لیے مطلوب ہے)، تو اس کی تنخواہ حلال ہوگی، اس لیے کہ تنخواہ کے حلال ہونے کا تعلق فرائض کی درست ادائیگی سے  ہے، اور اگر   وہ سائل   اس ملازمت  اور نوکری کا اہل نہیں ہے، یا اہل تو ہے، مگر دیانت داری کے ساتھ کام نہیں کرتا  تو اس کی تنخواہ حلال نہیں ہوگی، (یعنی جس قدر خیانت ہوگی، اسی قدر تنخواہ حلال نہیں ہوگی) ۔

صحیح بخاری میں ہے:

عن أبي هريرة رضي الله عنه،عن النبيّ صلى الله عليه وسلّم قال:"آية المنافق ثلاث:إذا حدّث كذب،وإذاوعدأخلف،وإذااؤتمن خان."

(كتاب الإيمان،باب علامة المنافق،ج:1،ص:143،مكتبةالبشرى)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"فالكذب الإخبار على خلاف الواقع وحق الأمانةأن تؤدي إلى أهلها،فالخيانةمخالفةلها."

(كتاب الإيمان، باب الكبائر وعلامات النفاق، ج: 1، ص: 226، مكتبة حقانية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الأجرة تستحق بأحد معان ثلاثة إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل أو باستيفاء المعقود عليه فإذا وجد أحد هذه الأشياء الثلاثة فإنه يملكها۔"

(كتاب الاجارة، الباب الثاني: متي يجب الاجر، ج: 4، ص: 413، ط: المكتبة الرشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101257

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں