بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نقد رقوم کی زکوۃ کی ادائیگی


سوال

میری  ٹریول  ایجنسی ہے، اس میں میری تین طرح کی رقم بند  ہے۔وہ رقم جو مجھ سے شروع میں بطورِ  ضمانت لے  لی گئی   ہے اور  وہ  مجھے تب ملے گی،  جب  میں  ایجنسی ختم کروں، اس سے پہلے نہیں ۔ وہ  رقم جو ان کے پاس ہے، جب  کسی جہاز  کے ٹکٹ  بک کرتے ہیں تو  رقم کی کٹوتی ہوجاتی ہے،اور  پھر  دوبارہ  ہم  جب  بندے سے پیسے لیتے ہیں، اس سے نفع رکھ کر باقی ان کو بھیج دیتے ہیں،اسی طرح یہ رقم استعمال ہوتی رہتی ہے۔ وہ رقم جو نفع کماکر اپنے بینک اکاؤنٹ میں جمع کرتےہیں۔ اب پوچھنا ہے کہ کس رقم میں زکوۃ ہے اور کس میں نہیں؟ اگر ہے تو کس ترتیب سے؟ 

جواب

زرِ ضمانت کے طور پر جمع کرائی گئی رقم تنہا یا دوسرے اَموال  کے ساتھ  مل کر نصاب کے برابر  یا اس سے زیادہ ہے ، تو اس رقم پر سالانہ زکوۃ  ادا کرنا آپ کے ذمے  لازم  ہے ، آپ کی  زکوۃ  کی ادائیگی کا جو دن ہے،  اس دن دیگر اموال کا حساب کرتے ہوئے اس رقم کو بھی شامل کرکے مجموعی اموال کی زکوۃ ادا کریں گے۔اگر اس رقم پر سالانہ زکوۃ ادا نہ کی تو جب یہ رقم آپ کو واپس ملے گی اس وقت گزشتہ تمام سالوں کی زکوۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔

اسی طرح آپ کی جو رقم آپ نے پیشگی جمع کرائی ہوئی ہے اور ٹکٹ کی خریداری کے وقت وہ رقم کٹتی رہتی ہے، اس رقم کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر یہ رقم تنہا یا دوسری رقوم کے  ساتھ مل کر نصاب کے برابر ہے  اور سال پورا ہونے پر وہ کل رقم یا اس میں سے کچھ باقی ہے تو  اس کی  زکوۃ  ادا کرنابھی آپ پر لازم ہے۔زکوۃ کی ادائیگی کے دن اس رقم کو بھی مجموعی حساب میں شامل کیاجائے گا۔

بینک  اکاؤنٹ میں جو رقم جمع ہے اس رقم پر بھی زکوۃ ادا کرنا لازم ہے۔اور زکوۃ کی ادائیگی کے دن یہ تمام رقوم حساب میں شامل ہوں گے ، اور نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہونے کی صورت میں ڈھائی فیصد زکوۃ ادا کی جائے گی، زکوٰۃ کی ادائیگی  کا طریقہ یہ ہے کہ جب زکوٰۃ کا سال مکمل ہو تو بنیادی ضروری اخراجات  (بشمول ماہانہ یوٹیلیٹی اور دیگر بلز) اور  واجب الادا قرض  اور ادائیگیوں کو  نکال کر بقیہ رقم اگر نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو ڈھائی فیصد زکوٰۃ میں ادا کرنا ضروری ہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108201792

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں