بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نقد رقم قرض دے کر واپسی میں سونا لینا


سوال

زید سے خالد نے ایک لاکھ روپے بطور قرض مانگا اور کہا کہ ایک سال کے بعد ادا کر دوں گا،  اس پر زید نے کہا کہ میرے پاس پیسے تو ہیں لیکن میں اس سے سونا لینا چاہتا ہوں، اگر آج اتنے میں سونا خریدا تو پچیس گرام سونا مل جائے گا اگر تم ایک  سال بعد اتنا سونا یا اس کی قیمت دے سکوگے تو میں دے سکتا ہوں، نہیں تو معذرت چاہتا ہوں۔ خالد نے کہا:  مجھے منظور ہے،  میں اتنا سونا یا اس کی قیمت ادائیگی کے وقت دے دوں گا، کیا اس طرح قرض دینا کہ دے تو پیسے ، لیکن دیتے وقت سونا کا جو ریٹ ہے اس کے مطابق سونا کا وزن طے کر کے بدلے میں سونا یا اس کی قیمت کا مطالبہ کیا جائے،جائز ہے؟

جواب

قرض کا ضابطہ یہ ہے کہ  جو  چیز  قرض دی جاتی ہے،  واپسی کے وقت  اس کے مثل ہی قرض میں لوٹائی جاتی ہے۔ اس میں معاہدہ کے تحت کمی زیادتی کرنے سے سود لازم آتا ہے جو کہ ناجائز ہے۔ 

لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر   زید نے خالد کو  نقد رقم کی صورت میں قرض دیا ہے تو واپسی میں اتنی ہی رقم (مثلًا: مسئولہ صورت میں ایک لاکھ روپے) یا  ادائیگی کے وقت اس رقم  (ایک لاکھ روپے) میں جتنا سونا آتا ہو وہ  اس کے لیے لینا جائز ہوگا،   اس کے بجائے  نقد رقم قرض دیتے ہوئے اس کی موجودہ  مالیت کے بقدر سونا طے کرکے واپسی میں اس قدر سونا لینا جائز نہیں ہوگا۔البتہ  اگر  قرض دینے والا خود اس رقم سے سونا خرید کر  قرض دے  دے،  اور   واپسی  میں اسی قدر سونا یا  اس کی قیمت  وصول کرے تو  اس کی گنجائش ہوگی۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (7 / 395):

"(وأما) الذي يرجع إلى نفس القرض: فهو أن لا يكون فيه جر منفعة، فإن كان لم يجز، نحو ما إذا أقرضه دراهم غلة، على أن يرد عليه صحاحًا، أو أقرضه و شرط شرطًا له فيه منفعة؛ لما روي عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه «نهى عن قرض جر نفعًا» ؛ ولأن الزيادة المشروطة تشبه الربا؛ لأنها فضل لايقابله عوض، والتحرز عن حقيقة الربا، وعن شبهة الربا واجب هذا إذا كانت الزيادة مشروطةً في القرض."

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامدية (1/ 279):

"(سئل) في رجل استقرض من آخر مبلغاً من الدراهم وتصرف بها ثم غلا سعرها فهل عليه رد مثلها؟
(الجواب) : نعم ولاينظر إلى غلاء الدراهم ورخصها كما صرح به في المنح في فصل القرض مستمداً من مجمع الفتاوى".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/161) :

"فيصح استقراض الدراهم والدنانير، وكذا كل ما يكال أو يوزن أو يعد متقارباً".

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144207200808

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں