بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نقد اور ادھار کی قیمت میں فرق کرنے کا حکم


سوال

دکاندار  "الف" دکاندار "ب" کو اس شرط پر مال ادھار دیتا ہے کہ جب وہ اس کی قیمت ادا کرے گا تو اسے نقد لینے کی قیمت سے زیادہ قیمت ادا کرنی ہو گی،  کیا ایسا کرنے کی شریعت میں ممانعت ہے؟ دکاندار "الف"  کے لیے ایسا کرنا درست ہے؟ دکاندار "ب" ایسا سودا کر سکتا ہے؟

جواب

اگر کوئی شخص کسی کو مال بیچتا ہے اور معاملہ کے وقت نقد و ادھار دونوں کی قیمت الگ الگ بیان کرتا ہے تو  اس معاملہ کے درست ہونے کے  لیے ضروری ہے کہ خریدار اور  فروخت کنندہ معاملہ کے وقت ہی نقد  یا ادھار قیمت میں سے کسی ایک قیمت کو باہمی رضامندی سے متعین کر لیں، اگر اس معاملہ کو کسی ایک قیمت کی تعیین کے بغیر چھوڑ دیا جائے تو یہ معاملہ فاسد ہو جائے گا، نیز ادھار قیمت طے کرنے کی صورت میں  قیمت کی ادائیگی میں وقتِ مقررہ سے تاخیر پر  جرمانے یا کسی بھی نام سے اضافی رقم وصول کرنا بھی جائز نہیں ہوگا، اگر عقد کے وقت ایسی شرط رکھی گئی تو یہ معاملہ فاسد ہوجائے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر معاملہ کی مجلس میں ہی یہ طے ہو جاتا ہے کہ یہ مال ادھار پر دیا جا رہا ہے اور  اس کی قیمت نقد سے زیادہ ہو گی  اور وہ قیمت متعین کردی جاتی ہے اور مزید تاخیر کی صورت میں کوئی اضافہ وصول نہیں کیا جاتا تو یہ معاملہ درست ہو گا۔

المبسوط للسرخسي (13/ 7):

"و إذا عقدالعقد على أنه إلى أجل كذا بكذا و بالنقد بكذا، أو قال: إلى شهر بكذا و إلى شهرين بكذا، فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم و لنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع، وهذا هو تفسير الشرطين في بيع، و مطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية، و هذا إذا افترقا على هذا، فإن كان يتراضيان بينهما و لم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، و أتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201284

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں