بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نقد مال میں زکات کی وضاحت


سوال

 ضرورت سے زائد نقد مال کی وضاحت فرمائیں، بعض لوگوں کے پاس پیسے ہوتے ہیں جو وہ اپنے لیے جمع کرتے ہیں، تاکہ بوقتِ ضرورت کام آ سکے،کیا یہ مال بھی ضرورت سے زائد مال میں شمار ہوگا؟ اور اس کو سونا یا چاندی کے ساتھ ملا کر زکوٰۃ دی جائے گی؟ 

جواب

ضرورت سے زائد نقدرقم کا مطلب یہ ہے کہ رواں مہینے کے اخراجات سے زائد اضافی رقم ہو، اگر کسی کے پاس کچھ پیسےہو  اور  اسے معلوم ہوکہ وہ  ماہانہ ضروری اخراجات   (مثلاً:  واجب الادا بل ، گھر کا راشن ، قرض وغیرہ)میں خرچ ہوں گے تو وہ ضرورت سے زائد شمار نہیں ہوں گےاوران کو سونایا چاندی(اگرنصاب کےبقدر نہ ہوں) کےساتھ ملاکر زکوٰۃ نہیں دی جائےگی،بشرطیکہ نصاب پر سال مکمل ہوتے وقت وہ رقم نہ ہو ورنہ اخراجات ادا کرنے کے بعد جو رقم ہو گی اس کی زکوۃادا کرنا لازم ہو گا، اور اگر ضرورت سےزائد نقد مال سے مراد کرنسی نہیں بلکہ اجناس اور اشیاء ہیں اور وہ تجارت کی نیت سے نہیں لی تو اس پر زکوۃ واجب نہیں ہو گی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وقيمة العرض) للتجارة (تضم إلى الثمنين)؛ لأن الكل للتجارة وضعاً وجعلاً (و) يضم (الذهب إلى الفضة) وعكسه بجامع الثمنية (قيمة)".

"(قوله ويضم إلخ) أي عند الاجتماع. أما عند انفراد أحدهما فلا تعتبر القيمة إجماعا بدائع؛ لأن المعتبر وزنه أداء ووجوبا كما مر. وفي البدائع أيضا أن ما ذكر من وجوب الضم إذا لم يكن كل واحد منهما نصابا بأن كان أقل، فلو كان كل منها نصابا تاما بدون زيادة لا يجب الضم بل ينبغي أن يؤدي من كل واحد زكاته، فلو ضم حتى يؤدي كله من الذهب أو الفضة فلا بأس به عندنا، ولكن يجب أن يكون التقويم بما هو أنفع للفقراء رواجا وإلا يؤد من كل منهما ربع عشره."

(باب زكاة المال، 303/2، ط: سعيد) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100187

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں