بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ناپاکی کی حالت میں پڑھی گئی نمازوں کا حکم


سوال

صبح کے وقت جب  میں اٹھا تو  مجھے معلوم نہیں تھا کہ مجھے احتلام ہوا ہے، صبح اٹھنے سے پہلے میں واش روم سے ہو کر آیا تھا تو مجھے لگا کہ میری شلوار  پر استنجا کی وجہ سے پانی لگا ہوا ہے، میں نے اپنا لباس تبدیل کیا اور  بنا نہائے آفس چلا گیا، کیوں کہ مجھے معلوم نہیں تھا ، میں سمجھا میں پاک ہوں۔ میں نے ساری نمازیں ادا کیں  اور جب میں رات میں کپڑے بدلنے کے لیے گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میری شلوار تو پاک ہی نہیں ہے؛ جو کہ کل رات میں پہن کر سویا تھا،اس پر نشان کی وجہ سے میں نے نوٹ کیا۔ میں اپنے  ساتھ آفس جاتے ہوئے ایک دوست  کی اسلامی کتاب اور شاید  اس میں قرآن بھی تھا جو کے جزدان میں تھا اس کو میں نے پلاسٹک بیگ میں اور پھر ایک کپڑے کے بیگ میں رکھ کر موٹرسائیکل پر آگے کی جانب رکھا اور آفس آگیا ۔شام میں وہ  بیگ لے کر میں گھر واپس آگیا، وہ بیگ شہر سے باہر بھیجنا چاہتا تھا، لیکن  وہ نہیں جا سکا، اس پورے واقعے میں اب میں اپنی نمازوں کاکیا کروں  ؟ اور جو بیگ میں نے آگے کی جانب رکھا تھا ،اس کا کفارہ کیا ہو گا ؟  مجھے آپ کی راہ نمائی  چاہیے۔میں نے  یہ غلطی جان بوجھ کر نہیں کی اور نہ ہی کوئی کرتا ۔  اب میں کیا کروں ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں ناپاکی کی حالت میں پڑھی گئی نمازیں ادا  نہیں ہوئیں،غسل کرنے کے بعد  ان   تمام نمازوں کو دوبارہ  پڑھنا لازم ہے، البتہ تمام  صرف فرض نمازیں  ادا  کرنی ہوں  گی،  سنتوں کی قضا نہیں کرنی ہوگی،  اور عشاء کے فرض کے ساتھ وتر  کی بھی  قضا  کرنی ہوگی، چوں کہ آپ نے جان بوجھ کر  ناپاکی کی حالت میں نماز نہیں پڑھی، بلکہ غلطی اور بھول سے پڑھی ہے؛  اس لیے  اس کا گناہ نہیں ہوگا، لیکن پھر بھی  بہتر ہے کہ آپ اس پر اللہ کے  حضور استغفار کر کے اس کی تلافی کرلیں۔ اسی طرح دینی کتاب اور جزدان میں موجودمصحف شریف پلاسٹک بیگ میں اور پھر کپڑے کے بیگ میں رکھ کر موٹر سائکل پر آگے رکھ کی جانب رکھ کرآفس آئے اس پر کوئی گناہ نہیں، ناپاکی کی حالت میں قرآنِ مجید کو بلاحائل چھونا منع ہے۔

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(أما) شرائط أركان الصلاة: (فمنها) الطهارة بنوعيها من الحقيقية والحكمية، والطهارة الحقيقية هي طهارة الثوب والبدن ومكان الصلاة عن النجاسة الحقيقية، والطهارة الحكمية هي طهارة أعضاء الوضوء عن الحدث، وطهارة جميع الأعضاء الظاهرة عن الجنابة.

(أما) طهارة الثوب وطهارة البدن عن النجاسة الحقيقية فلقوله تعالى: {وثيابك فطهر}[المدثر: 4] ، وإذا وجب تطهير الثوب فتطهير البدن أولى.

(وأما) الطهارة عن الحدث والجنابة فلقوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا إذا قمتم إلى الصلاة فاغسلوا وجوهكم} [المائدة: 6] إلى قوله: {ليطهركم} [الأنفال: 11] .

وقول النبي صلى الله عليه وسلم : «لا صلاة إلا بطهور» ، وقوله عليه الصلاة والسلام: «لا صلاة إلا بطهارة» وقوله صلى الله عليه وسلم: «مفتاح الصلاة الطهور» . وقوله تعالى: {وإن كنتم جنباً فاطهروا} [المائدة: 6] ، وقوله صلى الله عليه وسلم : «تحت كل شعرة جنابة ألا فبلوا الشعر وأنقوا البشرة» ، والإنقاء هو التطهير، فدلت النصوص على أن الطهارة الحقيقية عن الثوب والبدن، والحكمية شرط جواز الصلاة".

(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 114)،[فصل شرائط أركان الصلاة]، [كتاب الصلاة]،الناشر: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وحديث «رفع عن أمتي الخطأ» محمول على رفع الإثم.

 (قوله: «رفع عن أمتي الخطأ» ) قال في الفتح: ولم يوجد بهذا اللفظ في شيء من كتب الحديث، بل الموجود فيها " «إن الله وضع عن أمتي الخطأ والنسيان وما استكرهوا عليه»، رواه ابن ماجه وابن حبان والحاكم، وقال: صحيح على شرطهما، ح.

(قوله: على رفع الإثم) وهو الحكم الأخروي، فلايراد الدنيوي وهو الفساد؛ لئلايلزم تعميم المقتضى، ح عن البحر".

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 615)،باب ما يفسد الصلاة، وما ويكره فيها، ط: سعید) 

 فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144208201247

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں