کیا ناپاکی کے بھی درجات ہوتے ہیں؟ کیوں کہ پیشاب کی طرح خون سے اتنی ناگواری محسوس نہیں کی جاتی!
نجاست دو طرح کی ہوتی ہے: (1) نجاستِ غلیظہ، (2) نجاستِ خفیفہ۔
(1) نجاستِ غلیظہ:
مندرجہ ذیل چیزیں نجاست غلیظہ ہیں: آدمی کا فضلہ، پیشاب اور منی، جانوروں کا گوبر، حرام جانوروں کا پیشاب، انسان اور جانوروں کا بہتا ہوا خون، شراب، مرغی اور مرغابی و بطخ کی بیٹ۔
نجاستِ غلیظہ کا حکم:
نجاستِ غلیظہ کپڑے یا بدن میں مقدارِ درہم کے برابر ہو تو دھونا واجب ہے، اور مقدارِ درہم سے کم لگ جائے تو معاف ہے، نماز ہو جائے گی، لیکن اگر مقدارِ درہم سے زائد لگی ہو تو معاف نہیں، بلکہ دھونا فرض ہے۔
(2) نجاستِ خفیفہ:
مندرجہ ذیل چیزیں نجاست خفیفہ ہیں: حلال جانوروں مثلاً گائے، بکری وغیرہ کا پیشاب، اور حرام پرندوں کی بیٹ۔
نجاستِ خفیفہ کا حکم:
اگر نجاستِ خفیفہ کپڑے یا بدن میں لگ جائے، تو جس حصہ میں لگی ہے، اگر اس کے چوتھائی حصہ سے کم ہو، تو بغیر دھوئے نماز ہو جائے گی، اور اگر پورا چوتھائی یا اس سے زیادہ پر نجاست لگی ہو تو معاف نہیں، بلکہ دھونا لازم ہے۔
اس تقسیم میں انسان کا کسی چیز سے کراہیت کھانے پر مدار نہیں، بلکہ دلائل شرعیہ پر مدار ہے۔
’’أَنَّ الْمُغَلَّظَ مِنْ النَّجَاسَةِ عِنْدَ الْإِمَامِ مَا وَرَدَ فِيهِ نَصٌّ لَمْ يُعَارَضْ بِنَصٍّ آخَرَ، فَإِنْ عُورِضَ بِنَصٍّ آخَرَ فَمُخَفَّفٌ كَبَوْلِ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ، فَإِنَّ حَدِيثَ «اسْتَنْزِهُوا الْبَوْلَ» يَدُلُّ عَلَى نَجَاسَتِهِ وَحَدِيثَ الْعُرَنِيِّينَ يَدُلُّ عَلَى طَهَارَتِهِ. وَعِنْدَهُمَا مَا اخْتَلَفَ الْأَئِمَّةُ فِي نَجَاسَتِهِ فَهُوَ مُخَفَّفٌ، فَالرَّوْثُ مُغَلَّظٌ عِنْدَهُ؛ لِأَنَّهُ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – سَمَّاهُ رِكْسًا وَلَمْ يُعَارِضْهُ نَصٌّ آخَرُ. وَعِنْدَهُمَا مُخَفَّفٌ، لِقَوْلِ مَالِكٍ بِطَهَارَتِهِ لِعُمُومِ الْبَلْوَى.‘‘
(شامی، 1/318، باب الأنجاس، ط:سعید کراچی)
’’وَذَكَرَ الْكَرْخِيُّ أَنَّ النَّجَاسَةَ الْغَلِيظَةَ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ: مَا وَرَدَ نَصٌّ عَلَى نَجَاسَتِهِ، وَلَمْ يَرِدْ نَصٌّ عَلَى طَهَارَتِهِ، مُعَارِضًا لَهُ وَإِنْ اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِيهِ وَالْخَفِيفَةُ مَا تَعَارَضَ نَصَّانِ فِي طَهَارَتِهِ وَنَجَاسَتِهِ، وَعِنْدَ أَبِي يُوسُفَ وَمُحَمَّدٍ الْغَلِيظَةُ: مَا وَقَعَ الِاتِّفَاقُ عَلَى نَجَاسَتِهِ، وَالْخَفِيفَةُ: مَا اخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ فِي نَجَاسَتِهِ وَطَهَارَتِهِ.‘‘
(بدائع الصنائع، 1/80، فصل فی الأنجاس، ط:سعید کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203200089
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن