بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ناپاک پانی کو پاک کرنے کا حکم


سوال

کچھ صنعتی اداروں میں  کئی جدید ٹیکنیکی طریقوں  کے ذریعےنجاست کو دور کرنے کے لیےسیوریج کا پانی نجاست کو دور کرنے کے لیے صاف کیا جاتا ہے۔ کیا یہ پانی ہر قسم کی نجاست سے صاف ہونے کے بعد پاک ہوجاتا ہے؟ کیا اس پانی کو پاکی حاصل کرنے اور نجاست دورکرنے کے ساتھ ساتھ پینے کے استعمال میں بھی لانا جائز ہے؟

 

جواب

واضح رہے کہ جدید طریقوں سے مشینوں کے ذریعہ ناپاک  اور گندے پانی کو صاف  کرنے کا جو  عمل  کیا جاتا ہے اس سے پانی صاف تو ہوجاتا ہے مگر  پاک نہیں ہوتا،بلکہ ناپاک ہی رہتا ہے، لہذا ایسے پانی  سے بدن یا کپڑے وغیرہ سے نجاست کو زائل کرنا یااس پانی کو  وضو، غسل یا برتن کپڑے وغیرہ دھونے یا پینے  کے لیے یا کھانے وغیرہ کے استعمال میں لانا  جائز نہیں ہے۔

جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:

’’ ۔۔۔ فلٹر یا کشید کرنے میں حقیقت و ماہیت تبدیل نہیں ہوتی، بلکہ عمومًا فلٹر یا کشید کرنے کے عمل کا حاصل یہ ہوتاہے کہ کسی چیز کے خاص عناصر کو مشینری کے ذریعے الگ کرلیا جاتاہے، جیسے پھل سے اس کے اجزاء کو اور پھول سے اس کے خوش بو دار اجزاء کو نکال لیا جاتاہے، اب اتنے سے عمل سے نہ حقیقت بدلتی ہے، اور نہ اس کی وجہ سے حکم بدلتاہے۔

اسی طرح گٹر اور پیشاب کے پانی کی حقیقت ہے کہ ان میں سے بھی صرف فلٹر کے ذریعے پیشاب اور نجاسات کو نکال لیا جاتاہے، اور نجاست کے اثرات کو ختم کردیا جاتاہے، لیکن پیشاب کو فلٹر کرنے کے بعد جو بچتا ہے وہ بھی پیشاب کے اجزاء ہیں، اور پیشاب بجمیع اجزائہ نجس ہے۔

اور اگر فلٹر گندے پانی سے کیا جائے تب بھی پانی پاک نہیں ہوگا، کیوں کہ نجاست پانی کے ہر ہر جز میں سرایت کرچکی ہوتی ہے، اور اس کو فلٹر کے ذریعے بالکل علیحدہ نہیں کیا جاسکتا، فلٹر کرنے کےبعد بھی اس پانی میں اصل کے اعتبار سے خبائث اور گندگی کی علت باقی رہتی ہے، لہٰذا فلٹر شدہ پانی ناپاک ہے، ایسے پانی کو طہارت میں استعمال کرنا اور پینا جائز نہیں ہے۔ ‘‘

شرح مختصر الطحاوی میں ہے:

"و الدلیل علی تحریم استعمال الماء الذي فیه جزء من النجاسة و إن لم یتغیر طعمه أو لونه أو رائحته، قول اللہ تعالی: {ویحرم علیهم الخبائث}، و النجاسات من الخبائث؛ لأنها محرمة."

( کتاب الطهارۃ، باب ماتکون به الطهارۃ، مسألة: أثر و قوع النجاسة في الماء القلیل و الکثیر،ج۱،ص۲۳۹،  ط: دار البشائر الإسلامیة، بیروت)

الفقہ الاسلامی و ادلتہ  میں ہے:

"و المتنجس عند أکثر الفقهاء لاینتفع به، و لایستعمل في طهارۃ و لا في غیره إلا في نحو سقي بهیمة أو زرع أو في حالة الضرورة."

(  العبادات، الباب الأول، الفصل الأول، المبحث الرابع: أنواع المیاہ، النوع الثالث: الماء النجس،ج۱،ص۲۷۹، ط: رشیدیہ کوئٹہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309100312

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں