میری والدہ مریضہ ہیں، جس کی وجہ سے ان کے کپڑے بستر پر ہی خراب ہوجاتے ہیں ۔ میں والدہ کےکپڑے واشنگ مشین میں دھوتا ہوں تین مرتبہ، لیکن میں نچوڑتا نہیں ہوں تو کیا اس طرح وہ کپڑے پاک نہیں ہو ں گے؟
واضح رہے کہ ناپاک کپڑے دھونے کا اصل طریقہ تو یہ ہے کہ انہیں تین مرتبہ دھویا جائے اور ہر مرتبہ اچھی طرح (حتی الوسع) نچوڑ لیا جائے، لیکن اگر ناپاک کپڑے واشنگ مشین (Washing Machine) میں دھونے ہوں تو اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ کپڑے کی ناپاک جگہ کو پہلے الگ سے تین مرتبہ اچھی طرح دھوکر اور نچوڑ کر ، یا ناپاک حصے کو جاری پانی یا کثیر پانی میں دھو کر پاک کرلیاجائے ، پھر تمام پاک کپڑوں کو واشنگ مشین میں دھولیا جائے، اس صورت میں دوبارہ واشنگ مشین میں تین مرتبہ دھونا یا بہت زیادہ پانی بہانا ضروری نہیں ہوگا۔
اور اگر کپڑے کے ناپاک حصہ کو دھوئے بغیر واشنگ مشین میں ڈالا جائے اور کھنگالتے وقت تمام کپڑوں کو تین بار پانی میں ڈال کر نچوڑ لیا جائے یا تمام کپڑوں کو واشنگ مشین میں اچھی طرح دھو لیا جائے، پھر اِسپینر مشین (یعنی مشین کا وہ حصہ جس میں کپڑا ڈال کر گھمانے سے کپڑے اچھی طرح نچوڑ جاتے ہیں، اور کچھ حد تک خشک بھی ہوجاتے ہیں) میں کپڑوں کو ڈال دیا جائے، اور اِسپینر کے اوپر صاف پانی کا پائپ لگاکر اتنی دیر چلایا جائے کہ گندے پانی کی جگہ صاف پانی نیچے پائپ سے آنا شروع ہوجائے، تو یہ کپڑے پاک ہوجائیں گے، ہاتھ سے نچوڑنا ضروری نہیں ہوگا۔
حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 161):
"و" يطهر محل النجاسة "غير المرئية بغسلها ثلاثاً" وجوباً، وسبعاً مع الترتيب ندباً في نجاسة الكلب خروجاً من الخلاف، "والعصر كل مرة" تقديراً لغلبة.
یعني اشتراط الغسل والعصر ثلاثاً إنما هو إذا غمسه في إجانة، أما إذا غمسه في ماء جار حتى جرى عليه الماء أو صب عليه ماءً كثيراً بحيث يخرج ما أصابه من الماء ويخلفه غيره ثلاثاً فقد طهر مطلقاً بلا اشتراط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار، والمعتبر فيه غلبة الظن، هو الصحيح، كما في السراج، ولا فرق في ذلك بين بساط وغيره، وقولهم يوضع البساط في الماء الجاري ليلةً إنما هو لقطع الوسوسة."
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 331)
"(و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفاً وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد، به يفتى. (وقدر) ذلك لموسوس (بغسل وعصر ثلاثاً) أو سبعاً (فيما ينعصر) مبالغاً بحيث لايقطر ... و هذا كله إذا غسل في إجانة، أما لو غسل في غدير أو صب عليه ماء كثير، أو جرى عليه الماء طهر مطلقاً بلا شرط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار.
... أقول: لكن قد علمت أن المعتبر في تطهير النجاسة المرئية زوال عينها ولو بغسلة واحدة ولو في إجانة كما مر، فلا يشترط فيها تثليث غسل ولا عصر، وأن المعتبر غلبة الظن في تطهير غير المرئية بلا عدد على المفتى به، أو مع شرط التثليث على ما مر، ولا شك أن الغسل بالماء الجاري وما في حكمه من الغدير أو الصب الكثير الذي يذهب بالنجاسة أصلاً ويخلفه غيره مراراً بالجريان أقوى من الغسل في الإجانة التي على خلاف القياس ؛ لأن النجاسة فيها تلاقي الماء وتسري معه في جميع أجزاء الثوب فيبعد كل البعد التسوية بينهما في اشتراط التثليث، وليس اشتراطه حكماً تعبدياً حتى يلتزم وإن لم يعقل معناه، ولهذا قال الإمام الحلواني على قياس قول أبي يوسف في إزار الحمام: إنه لو كانت النجاسة دماً أو بولاً وصب عليه الماء كفاه، وقول الفتح: إن ذلك لضرورة ستر العورة كما مر، رده في البحر بما في السراج، وأقره في النهر وغيره. (قوله: في غدير) أي: ماء كثير له حكم الجاري. (قوله: أو صب عليه ماء كثير) أي: بحيث يخرج الماء ويخلفه غيره ثلاثاً ؛ لأن الجريان بمنزلة التكرار والعصر، هو الصحيح، سراج. (قوله: بلا شرط عصر) أي: فيما ينعصر، وقوله: " و تجفيف " أي: في غيره، وهذا بيان للإطلاق."
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144111201728
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن