کیا تھوڑے پانی سے کپڑے دھونے ہو ں تو تین مرتبہ دھونا اور تین مرتبہ نچوڑنا حکم اور شرط ہوگا؟ اگر ہاں تو یہاں تھوڑے پانی سے کیا مراد اور کیا مقدار ہے؟ کیا لوٹا، مگ اور کسی اور برتن میں پانی ڈال کر اس ناپاک کپڑے پہ بہاتے وقت اگر پانی کی دھار ٹوٹ جائے یا پانی ختم ہو جائے اور کپڑا ابھی ناپاک ہے تو اس کے بعد تین، تین مرتبہ دھونے اور نچوڑنے کا حکم تو نہیں ہوگا؟ یا دوبارہ پانی ڈال کر جب یقین ہو جائے تو پاک ہوگا؟
ایک دفعہ میں اپنی ناپاک شلوار دھو رہا تھا تو لوٹے سے پانی کی دھار ٹوٹ گئی اور پانی بھی ختم ہوگیا، لیکن یہ یقین نہ ہوا کہ شلوار پاک ہو گئی یا نہیں تو دوسری مرتبہ پانی لیا اور یقین ہوگیا کہ اب پاک ہو گئی ہے، مطلب دو مرتبہ دھوئی ہے ، تین مرتبہ نہیں دھوئی اور پانی کی دھار بھی ٹوٹی اور ایک بار پانی بھی ختم ہو ا ہے تو اس کا کیا حکم ہوگا؟ مزید یہ کہ لوٹا، مگ اور نلکے کا حکم (جاری پانی یا قلیل پانی) کا ہے؟
۱- اگر کپڑوں پر نجاست لگ جائے تو انہیں پاک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جس جگہ نجاست لگی ہو اس جگہ کو تین مرتبہ اس طور پر دھو لیا جائے کہ ہر مرتبہ پانی ڈالنے کے بعد اچھی طرح نچوڑ لیا جائے، اس طرح تین مرتبہ کر لینے سے کپڑے پاک ہو جائیں گے۔البتہ اگر ناپاک کپڑے کو تالاب یا بہتے پانی میں اچھی طرح دھویا جائے، اور اس پر خوب پانی بہایا جائے کہ نجاست کا اثر دور ہوجائے تو وہ کپڑا پاک ہوجاتا ہے، اگر چہ اسے تین مرتبہ نچوڑا نہ گیا ہو۔ اصل مقصود نجاست زائل کرنا ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے مذکورہ طریقہ پر اپنے کپڑے کو تین مرتبہ دھولیا تھا اور ہر مرتبہ دھونے کے ساتھ کپڑے کو اچھی طرح نچوڑ بھی لیا تھا یا سائل نے ایک ہی مرتبہ میں اچھی طرح پانی زیادہ بہا کرکپڑوں کو صاف کرلیا تھا اور نجاست (گندگی ) کے اثرات بالکل ختم ہوگئے تھے تو اس طرح دھونے سے سائل کے کپڑے پاک ہوگئے تھے، لیکن اگر سائل نے مذکورہ طریقہ پر اپنے کپڑوں کونہیں دھویا تھا تو اس صورت میں کپڑے پاک نہیں ہوئے تھے۔
۲- لوٹے اور مگ کا پانی جاری نہیں کہلاتا،ٹینکی وغیرہ سے جڑے ہوئے نلکے کا پانی جاری کے حکم میں ہے۔
وفي حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح:
"و" يطهر محل النجاسة "غير المرئية بغسلها ثلاثاً" وجوباً، وسبعاً مع الترتيب ندباً في نجاسة الكلب خروجاً من الخلاف، "والعصر كل مرة" تقديراً لغلبة.
یعني اشتراط الغسل والعصر ثلاثاً إنما هو إذا غمسه في إجانة، أما إذا غمسه في ماء جار حتى جرى عليه الماء أو صب عليه ماءً كثيراً بحيث يخرج ما أصابه من الماء ويخلفه غيره ثلاثاً فقد طهر مطلقاً بلا اشتراط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار، والمعتبر فيه غلبة الظن، هو الصحيح، كما في السراج، ولا فرق في ذلك بين بساط وغيره، وقولهم يوضع البساط في الماء الجاري ليلةً إنما هو لقطع الوسوسة''۔ (ص: 161)
وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:
'' (و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفاً وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد، به يفتى. (وقدر) ذلك لموسوس (بغسل وعصر ثلاثاً) أو سبعاً (فيما ينعصر) مبالغاً بحيث لايقطر ... وهذا كله إذا غسل في إجانة، أما لو غسل في غدير أو صب عليه ماء كثير، أو جرى عليه الماء طهر مطلقاً بلا شرط عصر وتجفيف وتكرار غمس، هو المختار.
(رد المحتار 1/ 331ط:سعيد)
"لَوْ غُسِلَ فِي غَدِيرٍ أَوْ صُبَّ عَلَيْهِ مَاءٌ كَثِيرٌ، أَوْ جَرَى عَلَيْهِ الْمَاءُ طَهُرَ مُطْلَقًا بِلَا شَرْطِ عَصْرٍ وَتَجْفِيفٍ وَتَكْرَارِ غَمْسٍ هُوَ الْمُخْتَارُ".
(1/333، باب الانجاس، ط؛ سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203201239
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن