بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ناپاک گیند کا زمین سے رگڑ کھاکر خشک ہوجانے اور پھر پسینے والا ہاتھ لگنے کا حکم


سوال

کیا ٹیپ بال (گیند) جب گندے پانی میں چلا جائے تو پھر جب زمین کے ساتھ رگڑ کھانے سے پاک   ہو جاتی ہے؟ نیز   ہاتھ کا پسینہ جب گیند سے لگے تو اس پسینے کی وجہ سے ہاتھ ناپاک تو نہیں ہوگا؟

جواب

واضح رہے کہ ٹیپ بال( گیند ) پر اگر ٹیپ لگاہو یا بغیر کپڑے کا ہو تو زمین کے ساتھ رگڑنے سے جب نجاست کے اثرات ختم ہوجائیں گے تو پاک ہوجائے گا، اور اگرگیند  کپڑے کی ہو تو اگر ناپاک پانی میں گر جائے تو  چوں کہ کپڑا ناپاک پانی کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے ؛ اس لیے گیند پاک پانی سے دھوئے  بغیر پاک نہیں  ہوگی،اسی طرح جب ہاتھ پر پسینہ آئے اوروہ گیلا ہاتھ اس ناپاک  گیند کو لگے تو  اگر نجاست کا اثر ہاتھ پر ظاہر نہیں ہوا تو ہاتھ ناپاک نہیں ہوگا،اور اگر نجاست کا اثر ہاتھ پر ظاہر ہوا تو ہاتھ ناپاک ہوگا۔

المحیط البرہانی میں ہے:

"قال الزنرويستي رحمه الله في «نظمه» : شيئان يطهران ‌بالجفاف: الأرض إذا أصابها نجاسة فجفّت ولم يُرَ أثرها جازت الصلاة فوقها. والتلة والحشيش وما نبت في الأرض إذا أصابتها النجاسة فجفت طهرت لأنها من نبات الأرض والأرض تطهر بهذا فكذا نباتها."

(‌‌كتاب الطهارات، ‌‌الفصل السابع في النجاسات وأحكامها، ج:1، ص:205، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: نام) أي: فعرق، وقوله: أو مشى: أي: وقدمه مبتلة. (قوله: على نجاسة) أي: يابسة لما في متن الملتقى لو وضع ثوبا رطبا على ما طين بطين نجس جاف لا ينجس، قال الشارح: لأن بالجفاف تنجذب رطوبة الثوب من غير عكس بخلاف ما إذا كان الطين رطبا. اهـ. (قوله: إن ظهر عينها) المراد بالعين ما يشمل الأثر؛ لأنه دليل على وجودها لو عبر به كما في نور الإيضاح لكان أولى. (قوله: تنجس) أي: فيعتبر فيه القدر المانع كما مر في محله."

(‌‌كتاب الطهارة، ‌‌باب الأنجاس، ‌‌فصل الاستنجاء، ج:1، ص:346، ط:سعيد)

وفيه ايضاً:

"ولو لف في مبتل بنحو بول، ‌إن ‌ظهر ‌نداوته أو أثره تنجس وإلا لا."

(‌‌كتاب الطهارة، ‌‌باب الأنجاس، ‌‌فصل الاستنجاء، ج:1، ص:347، ط:سعيد)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

"الجواب حامداً ومصلیاً:

بھیگا ہوا ہاتھ خشک ناپاک کپڑے کو لگانے سے اگر ہاتھ پر نجاست کا اثر ظاہر نہیں ہوا تو ناپاک نہیں ہوا۔"

(کتاب الطہارت، باب الانجاس، ج:5، ص:263، ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144501101734

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں