بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ناپاک گدے پر گیلے ہاتھ یا کپڑوں کے ساتھ بیٹھنے کا حکم


سوال

احتلام یا کسی اور وجہ سے گدّے پر منی لگ جائے اور وہ سوکھ جائے پھر اس ناپاک گدّے کو کسی رشتہ دار کے گھر دے دیں،اور منی لگے کچھ عرصہ بھی گزر گیا ہو مثلاً: سال، دو سال، اب ان رشتہ دار کے گھر جائیں  اور ان کو اس گدّے پر کھاتے پیتے اور تلاوت کرتے ہوئے دیکھیں،تو  اب ذہن میں بار بار خیال آ رہا ہے کہ ان کا سارا گھر ناپاک ہو گیا ہے اور اس قسم کے  وسوسے ا ٓرہے ہیں ،اس کا کیا کریں؟ اور کیااگر  ہم  اس گدَے پر گیلے ہاتھ یا کپڑوں کے ساتھ بیٹھیں ، تو کیا ہم بھی ناپاک ہو جائیں گے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کو یہ بات یقینی طو ر پر معلوم ہے کہ مذکورہ گدّے پر منی لگ گئی تھی ،تو ایسی صورت میں مذکورہ گدے کا وہ حصہ جہاں ناپاکی لگی تھی ، سال دوسال گزر  جانے کے بعد بھی  ناپاک ہی  رہے گی ،البتہ سائل کا اپنے رشتہ دار کو اس گدے کا استعمال کرتے ہوئے دیکھ کر   اس وہم میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ ان کا پورا گھر ناپاک ہوگیا ہوگا،بلکہ صرف  متاثرہ حصہ ناپاک ہے ،ایسی صورت حال میں سائل کو چاہیے کہ انہیں اس گدے کے ناپاک ہونے کا بتادےتاکہ وہ اسے پاک کرلیں  یا سائل  حکمت کے ساتھ کوئی  طریقہ اختیار کرکے (مثلاً:کچھ دنوں کے لیے ان سے گدا استعمال کے بہانے لے لے)  اس گدے کے متاثرہ حصہ کو پاک کردے ،یعنی اس کو اتنی اچھی طرح دھوئے کہ ناپاکی کے زائل ہونے کا یقین ہوجائے ،یا ایک مرتبہ پانی بہا کر چھوڑدے ،یہاں تک کہ ٹپکنا بند ہوجائے ،پھر دوبارہ پانی بہائے ،اس طرح تین مرتبہ کرنے سے گدا پاک ہوجائے گا۔

نیز اگر وہ رشتہ دار اس ناپاک گدے پر کوئی موٹی چادر وغیرہ بچھاکر اس کو استعمال کرتے ہیں ، اس پر تلاوت کرتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ،اور اس سے وہ ناپاک نہیں ہوں گے ،اسی طرح اگر گداخشک ہو،اور  اس کے متاثرہ ناپاک حصہ پر گیلے بدن یا گیلے کپڑوں کے ساتھ بیٹھا جائے ،تو اس سے گیلا بدن یا گیلے کپڑے ناپاک نہیں ہوں گے جب تک کہ اس ناپاکی کا اثر بدن یا کپڑے تک نہ پہنچ جائے ۔ 

المحيط البرهاني میں ہے:

"إذا أصابت النجاسة خفاً أو نعلاً لم يكن لها جرم، كالبول والخمر فلا بد من الغسل رطباً كان أو يابساً ."

(كتاب الطهارات، الفصل السابع في النجاسات وأحكامها،ج:1،ص:202، ط:دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(و) قدر (بتثليث جفاف) أي: انقطاع تقاطر (في غيره) أي: غير منعصر مما يتشرب النجاسة.

(قوله: أي: غير منعصر) أي: بأن تعذر عصره كالخزف أو تعسر كالبساط أفاده في شرح المنية. (قوله: مما يتشرب النجاسة إلخ) حاصله كما في البدائع أن المتنجس إما أن لا يتشرب فيه أجزاء النجاسة أصلا كالأواني المتخذة من الحجر والنحاس والخزف العتيق، أو يتشرب فيه قليلا كالبدن والخف والنعل أو يتشرب كثيرا؛ ففي الأول طهارته بزوال عين النجاسة المرئية أو بالعدد على ما مر؛ وفي الثاني كذلك؛ لأن الماء يستخرج ذلك القليل فيحكم بطهارته، وأما في الثالث فإن كان مما يمكن عصره كالثياب فطهارته بالغسل والعصر إلى زوال المرئية وفي غيرها بتثليثهما، وإن كان مما لا ينعصر كالحصير المتخذ من البردي ونحوه إن علم أنه لم يتشرب فيه بل أصاب ظاهره يطهر بإزالة العين أو بالغسل ثلاثا بلا عصر، وإن علم تشربه كالخزف الجديد والجلد المدبوغ بدهن نجس والحنطة المنتفخة بالنجس؛ فعند محمد لا يطهر أبدا، وعند أبي يوسف ينقع في الماء ثلاثا ويجفف كل مرة، والأول أقيس، والثاني أوسع اهـ وبه يفتى درر."

(كتاب الطهارة،باب الأنجاس،ج:1،ص:332،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" وما لاينعصر يطهر بالغسل ثلاث مرات والتجفيف في كل مرة؛ لأن للتجفيف أثراً في استخراج النجاسة. وحد التجفيف: أن يخليه حتى ينقطع التقاطر، ولايشترط فيه اليبس، هكذا في التبيين. هذا إذا تشربت النجاسة كثيراً، وإن لم تتشرب فيه أو تشربت قليلاً يطهر بالغسل ثلاثاً، هكذا في محيط السرخسي".

(كتاب الطهارة،الباب السابع في النجاسة وأحكامها،الفصل الأول في تطهير الأنجاس،ج:1،ص:42،ط:دار الفكر)

مجمع الأنهر في شرح ملتقي الأبحر میں ہے:

"(ولو لف ثوب طاهر في رطب نجس فظهرت فيه رطوبته إن كان بحيث لو عصر قطر تنجس) فلا تجوز الصلاةفيه لاتصال النجاسة به (وإلا فلا) هو الأصح (كما لو وضع) الثوب حال كونه (رطبا على مطين بطين نجس جاف) بتشديد الفاء من جف؛ لأن الجفاف يجذب رطوبة الثوب فلا يتنجس، وأما إذا كان رطبا فيتنجس."

( كتاب الطهارة،باب الأنجاس، ج:1،ص:63/64،ط:دار احياء التراث العربي)

البحرالرائق  میں ہے: 

"قال رحمه الله ( لف ثوب نجس رطب في ثوب طاهر يابس فظهر رطوبته على الثوب ولكن لا يسيل إذا عصر لا يتنجس ) وذكر المرغيناني أنه إن كان اليابس هو الطاهر يتنجس ؛ لأنه يأخذ قليلا من النجس الرطب وإن كان اليابس هو النجس والطاهر هو الرطب لا يتنجس ؛ لأن اليابس هو النجس يأخذ من الطاهر ولا يأخذ الرطب من اليابس شيئا ويحمل على أن مراده فيما إذا كان الرطب ينفصل منه شيء وفي لفظه إشارة إليه حيث نص على أخذ الليلة وعلى هذا إذا نشر الثوب المبلول على محل نجس هو يابس لا يتنجس الثوب لما ذكرنا من المعنى."

(مسائل شتی،ج:8،ص:546،ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101687

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں