بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ناپاک اشیاء کو پاک کرنے کے طریقے کا معیار


سوال

1۔کیا کپڑا تین مرتبہ دھونا اور ہر بار نچوڑنا لازم ہے ؟

2۔اس طرح جوتے اور چپل کو بھی تین مرتبہ دھونا اور ہر بار دھونے کے بعد پانی کا ٹپکنا بند ہوجانا شرط ہے؟

3۔اگر کپڑے، جوتے اور چپل پر جگ، مگ یا لوٹے سے اتنا پانی بہائے کہ نجاست، ناپاکی کا اثر ختم ہو جائے تو مذکورہ چیزیں پاک ہو جائیں گے؟

جواب

واضح رہے کہ مذکورہ مسائل کے جواب سے قبل دو اصول کا سمجھنا ضروری ہے:

اصول نمبر1:

نجاست کی دو قسمیں ہیں:

الف: نجاست مرئیہ: یعنی جو  نجاست دکھائی دیتی ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اس  کے جسم کو زائل کرنا ضروری ہے، جب تک یہ زائل نہیں ہوگی جتنی بھی مرتبہ ناپاک چیز کو دھولیا جاۓ ،وہ  چیز پاک نہیں ہوگی۔

ب: نجات غیر مرئیہ: جو نجاست دکھائی نہیں دیتی ۔ اس کا حکم یہ ہے کہ  اس کو اس  قدر دھویا جاۓ کہ نجاست کے  زائل ہونے کا یقین ہوجاۓ، نیز تین مرتبہ دھوکر نچوڑنے یا خشک کرنے سے فقہاء کے قول کے مطابق نجاست کے زائل ہونے کا غالب گمان ہوجاتا ہے۔

اصول نمبر 2:

اگر کسی چیز میں نجاست غیر مرئیہ لگ جاۓ اور اس کو نچوڑنا ممکن ہو، تو اس چیز کو تین دفعہ دھونا اور ہر مرتبہ دھونے كے بعد  اس طورپر نچوڑنا کہ اس  چیز کو مزید نچوڑنا ممکن نہ رہے ،تو اس طرح  دھوكر نچوڑنے كي صورت ميں ، وہ ناپاک چیز  پاک ہوجاۓ گی ،جیسے کہ: کپڑا۔

لیکن اگر کسی چیز میں نجاست غیر مرئیہ لگ جاۓ اور اس کو نچوڑنا ممکن نہ ہو تو   اس چیز کو تین مرتبہ دھوکر  اتنے دیر انتظار کرنا ضروری ہے کہ اس سے مزید قطرے ٹپکنے کی گنجائش باقی نہ بچے ، جیسے کہ: جوتا۔

اس تمہید کے بعد سائل کے سوالات کے جوابات ترتیب وار یہ ہیں:

1۔ اگر کپڑے  میں نجاست غیر مرئیہ لگ جاۓ تو  کپڑا تین مرتبہ دھوکر ہر مرتبہ نچوڑنا ضروری ہے ، یہاں تک کہ مزید نچوڑنے کی گنجائش باقی نہ رہے، لہذا اگر ایسا نہیں کیا تو  کپڑا پاک نہیں ہوگا۔

2۔ اگر  جوتے پر نجاست غیر مرئیہ لگ جاۓ ،تو جوتے کو تین مرتبہ دھو کر  اتنے دیر انتظار کرنا ضروری ہے ،اس طور پر کہ اس سے پانی  کے قطرے ٹپکنا بند ہوجائیں ،لہذا اگر ایسا نہیں کیا توجوتا پاک نہیں ہوگا۔

3۔ اگر مذکورہ چیزوں میں لگنے والی نجاست مرئی ہے تو اس صورت میں نجاست کے زائل ہونے اور اثر ختم ہونے کے بعد ہی  مذکورہ چیزیں پاک ہوجائیں گی، لیکن اگر مذکورہ چیزوں میں لگنے والی نجاست غیر مرئی ہے تو یہی دیکھا جاۓ گاکہ ان چیزوں کو نچوڑنا ممکن ہے کہ نہیں؟ اگر نچوڑنا ممکن ہے تو ان اشیاء کو پاک کرنے کے لیے تین مرتبہ  دھونے  کے بعد   نچوڑنا ضروری ہوگا،جیسے کہ:کپڑے،اور اگر نچوڑنا ممکن نہ ہو تو اس صورت میں ان اشیاء  کو پاک کرنے کے لیے تین مرتبہ دھوکر  قطرے ٹپکنا بند ہونے تک انتظار کرنا پڑے گا، جیسے کہ:  جوتے اور چپل۔

نوٹ: واضح رہے کہ بسا اوقات ناپاک اشیاء  سے نجاست کو دھونے کے بعد اس نجاست  کا عین اور اثر ختم ہوجا تا ہے، البتہ اس نجاست  کا رنگ باقی رہ جاتا ہے، تو فقہاء کے قول کے مطابق وہ چیز پاک ہوجاتی ہے۔ نیز  اگر چپل جوتے میں مرئی نجاست لگ جائے تو اس  کو مٹی میں رگڑنے یا مٹی پر چلنے سے بھی وہ پاک ہو جائے گا۔ یہ بھی ملحوظ رہے کہ کپڑے کو تین مرتبہ دھوکر ہر مرتبہ نچوڑنے کا حکم اس وقت ہے جب کہ اسے بہتے پانی یا کثیر پانی میں نہ دھویا جائے، اگر کپڑے کو جاری  یا کثیر پانی میں  اچھی طرح  رگڑ کر دھویا جائے  اور  اتنا پانی بہادیا جائے  کہ نجاست کے زائل ہونے کا یقین ہوجائے تو بھی کپڑا پاک ہوجائے گا۔

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"وكذا يطهر محل نجاسة) أما عينها فلا تقبل الطهارة (مرئية) بعد جفاف كدم (بقلعها) أي: ‌بزوال ‌عينها وأثرها ولو بمرة أو بما فوق ثلاث في الأصح۔۔۔۔(و) يطهر محل (غيرها) أي: غير مرئية (بغلبة ظن غاسل) لو مكلفا وإلا فمستعمل (طهارة محلها) بلا عدد به يفتى.

(وقدر) ذلك لموسوس (بغسل وعصر ثلاثا) أو سبعا (فيما ينعصر) مبالغا بحيث لا يقطر، ولو كان لو عصرهغيره قطر طهر بالنسبة إليه دون ذلك الغير، ولو لم يبالغ لرقته هل يطهر؟ الأظهر نعم للضرورة.

(و) قدر (بتثليث جفاف) أي: انقطاع تقاطر (في غيره) أي: غير منعصر."

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، 328،331/1، ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"فقال: فعلم بهذا أن المذهب اعتبار غلبة الظن وأنها مقدرة بالثلاث لحصولها به في الغالب وقطعا للوسوسة وأنه من إقامة السبب الظاهر مقام المسبب الذي في الاطلاع على حقيقته عسر كالسفر مقام المشقة اهـ. وهو مقتضى كلام الهداية وغيرها، واقتصر عليه في الإمداد، وهو ظاهر المتون حيث صرحوا بالثلاث."

(‌‌كتاب الطهارة،‌‌باب الأنجاس،331/1،ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا يضر بقاء أثر) كلون وريح (لازم) فلا يكلف في إزالته إلى ماء حار أو صابون ونحوه، بل يطهر ما صبغ أو خضب بنجس بغسله ثلاثا والأولى غسله إلى أن يصفو الماء. قال ابن عابدين: (قوله: بنجس) بكسر الجيم أي: متنجس إذ لو كان بعين النجاسة كالدم وجب زوال عينه وطعمه وريحه ولا يضر بقاء لونه كما هو ظاهر من مسألة الميتة أفاده ح."

(‌‌كتاب الطهارة،‌‌باب الأنجاس،329/1،ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ما يطهر به النجس عشرة: (منها) الغسل يجوز تطهير النجاسة بالماء وبكل مائع طاهر يمكن إزالتها به كالخل وماء الورد ونحوه مما إذا عصر انعصر. كذا في الهداية.

وما لا ينعصر كالدهن لم يجز إزالتها به. كذا في الكافي وكذا الدبس واللبن والعصير كذا في التبيين ومن المائعات الماء المستعمل وهذا قول محمد ورواية عن أبي حنيفة وعليه الفتوى. هكذا في الزاهدي وإزالتها إن كانت مرئية بإزالة عينها وأثرها إن كانت شيئا يزول أثره ولا يعتبر فيه العدد. كذا في المحيط فلو زالت عينها بمرة اكتفى بها ولو لمتزل بثلاثة تغسل إلى أن تزول، كذا في السراجية.

وإن كانت شيئا لا يزول أثره إلا بمشقة بأن يحتاج في إزالته إلى شيء آخر سوى الماء كالصابون لا يكلف بإزالته."

(کتاب الطہارۃ،الباب السابع،الفصل الأول في تطهير الأنجاس، 41،42/1، ط: رشیدیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو عصره في كل مرة وقوته أكثر ولم يبالغ فيه صيانة للثوب لا يجوز. هكذا في فتاوى قاضي خان.

إن غسل ثلاثا فعصر في كل مرة ثم تقاطرت منه قطرة فأصابت شيئا إن عصره في المرة الثالثة وبالغ فيه بحيث لو عصره لا يسيل منه الماء فالثوب واليد وما تقاطر طاهر وإلا فالكل نجس. هكذا في المحيط."

(کتاب الطہارۃ،الباب السابع،الفصل الأول في تطهير الأنجاس، 42/1، ط: رشیدیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإن كانت غير مرئية يغسلها ثلاث مرات. كذا في المحيط ويشترط العصر في كل مرة فيما ينعصر ويبالغ في المرة الثالثة حتى لو عصر بعده لا يسيل منه الماء ويعتبر في كل شخص قوته وفي غير رواية الأصول يكتفي بالعصر مرة وهو أرفق. كذا في الكافي وفي النوازل وعليه الفتوى. كذا في التتارخانية والأول أحوط. هكذا في المحيط."

(کتاب الطہارۃ،الباب السابع،الفصل الأول في تطهير الأنجاس، 42/1، ط: رشیدیة)

فتاوی ہندیہ میں  ہے:

"وما لا ينعصر يطهر بالغسل ثلاث مرات والتجفيف في كل مرة؛ لأن للتجفيف أثرا في استخراج النجاسة وحد التجفيف أن يخليه حتى ينقطع التقاطر ولا يشترط فيه اليبس."

(کتاب الطہارۃ،الباب السابع،الفصل الأول في تطهير الأنجاس، 42/1، ط: رشیدیة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الخف الخراساني الذي صرمه موشى بالغزل بحيث صار ظاهره كله غزلا فأصابت النجاسة تحتها فإنه يغسل ثلاثا ويجفف كل مرة، وقال بعضهم: يغسل مرة ويترك حتى ينقطع التقاطر ثم يغسل ثانيا وثالثا كذلك وهذا أصح والأول أحوط. كذا في الخلاصة."

(کتاب الطہارۃ،الباب السابع،الفصل الأول في تطهير الأنجاس،43/1، ط: رشیدیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144502100563

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں