بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ناپاک تَر کپڑے سے پاک چیز لگ جائے تو کیا حکم ہے؟


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ اگر ناپاک ہلکا گیلا تولیہ ہو تو اس سے تر جسم یا ہاتھ صاف کیے جائیں تو کیا ہاتھ یا جسم بھی ناپاک ہو جاۓ گا؟؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں ناپا ک گیلا کپڑا اگر پاک چیز کے ساتھ لگ جائےتو  اس میں تفصیل ہے، اور وہ یہ ہے کہ اگر وہ ناپاک کپڑا ایسا ہو جوعین نجاست (پیشاب اور خون وغیرہ ) سے گیلا ہو، اس صورت میں اگر ناپاک گیلے کپڑے کا اثر (رنگ، بُو، ذائقہ اور تری) پاک  خشک چیز پر ظاہر ہو، تو وہ خشک چیز  ناپاک ہو جائے گی، لیکن اگر اس ناپاک گیلے کپڑے کا اثر پاک چیز پر ظاہرنہ ہو، تو وہ خشک چیز ناپاک نہیں ہوگی۔

اور اگر ناپاک گیلا کپڑا ایسا ہو، جوعین نجاست (پیشاب اور خون وغیرہ ) سے گیلا نہ ہو، بلکہ ناپاک پانی سے گیلا ہو، اس صورت میں راجح قول یہ ہے کہ اگر ناپاک کپڑا اتنا گیلا ہو کہ نچوڑنے سے قطرہ گر جاتا ہو، تو پاک خشک چیز ایسے ناپاک گیلے کپڑے کے ساتھ لگ کر اس کے گیلے پن سے ناپاک ہوجاتی ہے، لیکن اگر ناپاک کپڑا اتنا زیادہ گیلا نہ ہو کہ اس کو نچوڑنے سے قطرہ گرتا ہو، تو خشک چیزایسے ناپاک گیلے کپڑے کے ساتھ لگ کر اس کے گیلے پن سے ناپاک نہیں ہوگی۔

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"ولو ابتل فراش أو تراب نجسا" وكان ابتلالهما "من عرق نائم" عليهما "أو" كان من "بلل قدم وظهر أثر النجاسة" وهو طعم أو لون أو ريح "في البدن والقدم تنجسا" لوجودها بالأثر "وإلا" أي وإن لم يظهر أثرها فيهما "فلا" ينجسان.
"كما لا ينجس ثوب جاف طاهر لف في ثوب نجس رطب لا ينعصر الرطب لو عصر" لعدم انفصال جرم النجاسة إليه. واختلف المشايخ فيما لو كان الثوب الجاف الطاهر بحيث لو عصر لا يقطر فذكر الحلواني أنه لا ينجس في الأصح وفيه نظر لأن كثيرا من النجاسة يتشربه الجاف ولا يقطر بالعصر كما هو مشاهد عند ابتداء غسله فلا يكون المنفصل إليه مجرد نداوة إلا إذا كان النجس لا يقطر بالعصر فيتعين أن يفتى بخلاف ما صحح الحلواني "ولا ينجس ثوب رطب بنشره على أرض نجسة" ببول أو سرقين لكونها "يابسة فتندت" الأرض "منه" أي من الثوب الرطب ولم يظهر أثرها فيه.
قوله: "من عرق نائم" قيد اتفاقي فالمستيقظ كذلك كما يفهم من مسألة القدم ولو وضع قدمه الجاف الطاهر أو نام على نحو بساط نجس رطب إن إبتل ما أصاب ذلك تنجس وإلا فلا ولا عبرة بمجرد النداوة على المختار كما في السراج عن الفتاوى قوله: "عليهما" أي على من نام على الفراش أو التراب النجسين قوله: "أو كان من بلل قدم الخ" أي كان ابتلال الفراش أو التراب الخ قوله: "لوجودها بالأثر" أي لوجود النجاسة بوجود أثرها في جنب النائم أو قدمه قوله: "فلا ينجسان" أي البدن والقدم قوله: "كما لا ينجس ثوب جاف طاهر" اعلم أنه إذا لف طاهر في نجس مبتل بماء واكتسب منه شيئا فلا يخلو إما ان يكون كل منهما بحيث لو انعصر قطر وحيئنذ ينجس الطاهر اتفاقا أو لا يكون واحد منهما كذلك وحيئنذ لا ينجس الطاهر إتفاقا أو يكون الذي بهذه الحالة الطاهر فقط وهو أمر عقلي لا واقعي أو النجس فقط والأصح عند الحلواني فيها أن العبرة بالطاهر المكتسب فإن كان بحيث لو انعصر قطر تنجس وإلا لا ويشترط أن لا يكون الأثر ظاهرا في الطاهر وأن لا يكون النجس متنجسا بعين نجاسة بل بمتنجس كما في شرح المنية وارتضى المصنف قول بعض المشايخ تبعا لصاحب البرهان أن العبرة للنجس."

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس والطهارة، عنها، ص: 158، الناشر: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305200006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں