نیند کے لیے جو بستر ہم استعمال کرتے ہیں، وہ ناپاک ہوتا ہے، کیا ناپاک بستر پہ لیٹ کے استغفا یا دُرود شریف پڑھا جاسکتا ہے؟ کیو ں کہ اکثر جب سونے لیٹ جاتے ہیں تو یہ اعمال کرنے ہوتے ہیں!
واضح رہے کہ جگہ کا پاک ہونا نماز کے صحیح ہونے کے لیے تو شرط ہے، دیگر اذکار کے صحیح اور ادا ہونے کے لیے شرط نہیں؛ لہذا اگر بستر ناپاک ہو تو اس پر بیٹھ کر ذکر اذکار کرنا منع نہیں ہے، البتہ براہِ راست ناپاک جگہ پر بیٹھ کر ذکر (درود شریف اور استغفار وغیرہ) کرنا ذکر کے آداب کے خلاف ہے، اس لیے بستر کے اوپر کوئی پاک کپڑا بچھا لینا چاہیے۔
نیز سونے کے لیے ناپاک بستر کے استعمال سے بچنا چاہیے، کیوں کہ اگر پسینہ نکلنے یا کسی اور وجہ سے چادر کا ناپاک حصہ اتنا گیلا ہوجائے کہ نجاست کا اثر بدن یا کپڑے تک پہنچ جائے تو بدن یا کپڑے کا وہ حصہ بھی ناپاک ہوجائے گا۔جسے پاک کرنا ضروری ہوگا، اور اگر وہ ایک درہم سے زیادہ ہو اور پاک نہ کیا جائے تو اس کے ساتھ نماز درست نہیں ہوگی۔ لہٰذا اگر بستر یا گدا تبدیل کرنا یا اسے دھونا مشکل ہو تو اس پر پاک موٹا کپڑا بچھا دینا چاہیے۔
یہ ملحوظ رہے کہ سونے کے لیے استعمال ہونے والا بستر، صرف اس وجہ سے ناپاک نہیں ہوتا کہ وہ نیند کا بستر ہے، بلکہ اگر اس پر کوئی نجاست یا ناپاکی لگ جائے تو بستر کی وہ جگہ صرف ناپاک ہوجاتی ہے، اور صرف اتنی ہی جگہ کو پاک کرلینے سے وہ بستر پاک ہوجائے گا۔
مجمع الأنهر في شرح ملتقي الأبحر میں ہے:
"(وَلَوْ لُفَّ ثَوْبٌ طَاهِرٌ فِي رَطْبٍ نَجَسٍ فَظَهَرَتْ فِيهِ رُطُوبَتُهُ إنْ كَانَ بِحَيْثُ لَوْ عُصِرَ قَطَّرَ تَنَجَّسَ) فَلَاتَجُوزُ الصَّلَاةُ فِيهِ لِاتِّصَالِ النَّجَاسَةِ بِهِ (وَإِلَّا فَلَا) هُوَ الْأَصَحُّ (كَمَا لَوْ وُضِعَ) الثَّوْبُ حَالَ كَوْنِهِ (رَطْبًا عَلَى مُطَيَّنٍ بِطِينٍ نَجَسٍ جَافٍّ) بِتَشْدِيدِ الْفَاءِ مِنْ جَفَّ؛ لِأَنَّ الْجَفَافَ يَجْذِبُ رُطُوبَةً الثَّوْبِ فَلَا يَتَنَجَّسُ، وَأَمَّا إذَا كَانَ رَطْبًا فَيَتَنَجَّسُ."
( كتاب الطهارة، بَابُ الْأَنْجَاسِ، ١ /٦٣ - ٦٤، ط: دار احياء التراث العربي)
موسوعة القواعد الفقهيہ میں ہے:
"القاعدة الثالثة عشرة
أولاً: لفظ ورود القاعدة:
"النجس إذا لاقى شيئاً طاهراً -وهما جافان- لاينجس النجس الطاهر".
ثانيًا: معنى هذه القاعدة و مدلولها:
هذه القاعدة بمعني القول المأثور: (جاف على جاف طاهر بلا خلاف)
فإذا وجد شيئ نجس كثوب أو أرض أو غيرها - وهو جاف لا رطوبة به، و قد لاقى شيئًا طاهرًا، أو وقع على طاهر جاف كذلك، فإن الطاهر لاينجس لملاقاة النجس مع الجاف، و لاتنتقل النجاسة من النجس الي الطاهر، لعدم بلل احدهما، أما لو كان أحدهما مبتلاً، فإن الطاهر ينجس.
ثالثًا: من أمثلة هذه القاعدة و مسائلها:
أرض أصابتها بول أو غيره ثم جفت و وضع عليها بساط جاف كذلك فإن البساط يبقى طاهرًا، و لاينجسه ما تحته للجفاف، حتى لو صلى عليه صحت صلاته.
و منها: على كرسي أو فراش نجاسة و قد جفت، و جلس على الكرسي أو الفراش إنسان و ثوبه جاف فلايتنجس ثوبه، لكن لو عرق تعدى العرق إلى الثوب الملاصق الكرسي أو الفراش فإنه ينجس."
( القسم الحادي عشر، ٩ / ١١٧٧، ط: مؤسسة الرسالة)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144209201659
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن