بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بینک کے سودی رقم سے وکلاء کا کمیشن دینے کا حکم


سوال

 ایک شخص نے بینک میں سیونگ اکاؤنٹ میں رقم جمع کروائی اور کرتے کرتے اس میں سود کے ضمن میں رقم جمع ہوتی رہی جو کہ اس شخص نے اپنی زندگی میں بھی استعمال کے  لیے نہیں نکالی اور اب مرنے کے بعد ورثاء نے بھی استعمال نہیں کی، لیکن اب وراثت کی تقسیم کے لیے کورٹ میں فیس جو کہ تقریباً پانچ لاکھ ہے جس میں سے آفیشل فیس (2)  لاکھ جب کہ پٹواری  اور وکلاء کا کمشن تقریباً (3)  لاکھ ادا کرنے ہیں۔ تو کیا یہ تین لاکھ اُس بینک والی رقم سے ادا کر سکتے ہیں یا نہیں،  یاپھردوسری صورت میں اس بینک والی رقم کا استعمال کیسے کیا جائے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سیونگ اکاؤنٹ میں موجود  اصل رقم پر  جو سودی رقم ہےاس سودی رقم  کا وصول کرنا ہی جائز نہیں ہے، صرف اصل رقم وصول کرناجائز ہے، اگر کسی نے لاعلمی میں سودی رقم وصول کرلی ہوتو اسے ثواب کی نیت کے  بغیر  غرباء وفقراء میں تقسیم کرنا ضروری ہےاپنے ذاتی فائدے کے  لیے ایسے پیسوں کا استعمال جائز نہیں ہے،لہذا مذکورہ سودی رقم سے  پٹواری اور وکلاء کا کمیشن اداء کرنا جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ مذکورہ کمیشن ذاتی فائدہ حاصل کرنے کی وجہ سے دی جاتی ہے، اور سود کے  پیسے ذاتی فائدہ حاصل کرنے کے  لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها؛ لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه".

(كتاب الحظر والاباحة، ج:6، ص:385، ط:ايج ايم سعيد)

معارف السنن میں ہے:

"قال شیخنا: ویستفاد من کتب فقهائنا کالهدایة وغیرها: أن من ملك بملك خبیث، ولم یمكنه الرد إلى المالك، فسبیله التصدقُ علی الفقراء ... قال: و الظاهر أن المتصدق بمثله ینبغي أن ینوي به فراغ ذمته، ولایرجو به المثوبة."

(أبواب الطهارة، باب ما جاء: لاتقبل صلاة بغیر طهور، ج:1، ص:34، ط: المکتبة الأشرفیة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144501101219

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں