بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نانی کے ترکہ میں ایک لاکھ روپے صرف نادار بیٹیوں کو دینے کاحکم


سوال

 میرے نانا کا انتقال 20 سال پہلے ہوا تھا اور میری نانی کا انتقال ابھی ہوا ہے ۔میری نانی کے  چار بیٹے اور چھ بیٹیاں ہیں جو سب شادی شدہ ہیں۔ تینوں بیٹوں کا رویہ نانا کے ساتھ بھی اچھا نہیں تھا اور دو بیٹوں نے جنازہ بھی نہیں پڑھا تھا ،زندگی میں ہی نانا نانی کو اکیلا چھوڑ دیا تھا اور ایک جو بیٹا صحیح تھا، وہ بھی شادی کے بعد ان بیٹوں کی طرح ہوگیا اور ماں پر ہاتھ اٹھانے تک بھی آ گیا تھا اور پھر بیوی کے ساتھ بھاگ گیا اور جب بیوی کے گھر والوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تو پھر گھر آگیا واپس ماں کے پاس لیکن ویسے خدمت نہیں کی جیسے کرنی چاہیے تھی اور نہ توجہ دی اور ایک بیٹا بیمار ہے، نانی کو اس کے بیٹے خرچہ بھی نہیں دیتے تھے صرف نانی کے بھائی خرچہ دیتے تھے اور نانا کی پنشن آتی تھی جو نانی کو ملتی تھی جن پیسوں سے وہ اپنا اور اپنی ایک طلاق یافتہ بیٹی اور اس کی دو بیٹیوں کے ساتھ گزارا کرتی تھیں  اور نانا کی پنشن اور بھائیوں کے بھیجے ہوئے خرچے سے تھوڑا بہت بچا کر رکھتی بھی تھیں  ،ایک دوسری بیٹی کے پاس جس کی خود مالی حالت اچھی نہیں تھی وہ شادی شدہ تھی  اور اس کی بھی چار پانچ بیٹیاں تھیں ۔اس لیے نانی اس کا بھی بہت خیال کرتی تھی اور اپنے خرچے میں سے اس کو بھی دیتی تھیں  اور اپنی رقم اس کے پاس امانت کے طور پر بھی رکھتی تھیں  ، کسی کو نہیں پتہ تھا کہ نانی کے پاس کتنے پیسے ہیں۔ نانی کے مرنے کے بعد اسی بیٹی کے پاس ایک لاکھ جمع کیا ہوا پیسے ملے ہیں بقی کچھ نہیں ہیں، جس میں سے نانی کی زندگی میں اسی بیٹی نے تیس ہزار روپے قرض کے طور پر اس میں سے خرچ کر دیے تھے، اپنے بچوں پر اس نیت سے کہ وہ اس میں دوبارہ تھوڑے تھوڑے کر کے رکھ دے گی۔

آپ سے درخواست ہے کہ اب یہ بتائیں کہ اب میری نانی کا انتقال ہو گیا ہے،نانی کے چھوڑے ہوئے ایک  لاکھ  روپے  کیا بیٹیاں خرچ کر سکتی ہیں جن کی مالی حالت اچھی نہیں جب کہ نانی خود ان کی مدد کیا کرتی تھیں،اور نانی کے بیٹے خرچہ بھی نہیں دیتے تھے نہ ہی ماں کا حق ادا کرتے تھے، اب  یہ روپے  کیسے خرچ کیے جائیں ؟کیا اسی بیٹی کو 30 ہزار روپے چھوڑ دیے جائیں نانی کا خرچہ سمجھ کر ایک غریب بیٹی سمجھ کراور باقی رقم دوسری بیٹی کو دی جائے جو ان  کے ساتھ تھی طلاق یافتہ اور آگے اس کی بھی بیٹیاں ہیں دو۔ اس کا کوئی کمانے والا نہیں ہے۔ لوگ اس کو زکوۃ دیتے ہیں اور وہ خود بھی گھروں کے کام کرتی ہے تب جا کے گھر کا خرچہ چلتا ہے نانی کے تینوں بیٹے کسی قسم کی ان بہنوں کی مدد نہیں کرتے نہ ہی باپ کا کرتے تھے اور نہ ہی ماں کا کیا، یہ تفصیل بتانے کے بعد آپ ہماری راہ نمائی فرمائیں کہ اس رقم کو کیسے خرچ کیا جائے آیا وہ دو یا تین بیٹیاں جو ضرورت مند ہیں کیا وہ خرچہ کرسکتی ہیں اپنی ماں کی اس چھوڑی ہوئی رقم سے یا پھر بیٹوں کو دینا پڑے گا یا پھر اللہ کے نام پر ساری رقم وقف کر دیں،یا پھر بیٹیاں اپنی ضرورت پوری کریں اس ماں کے چھوڑے ہوئے رقم سے اور وہ خود بیٹیاں بہت ضرورت مند ہیں ،لوگ ان کی مدد کرتے ہیں زکات خیرات سے،  آپ راہ نمائی فرمائیں اس معاملے میں تاکہ اللہ بھی راضی ہو اور مجھ سے بھی کوئی غلط فیصلہ نہ ہو۔

جواب

واضح رہے کہ حقِ وراثت کا مدار فقر و تنگ دستی پر نہیں ، بلکہ  وراثت کا مدار  قرابت  داری اور نسب  پر  ہے،  اس لیے والدین میں  سے کسی کے انتقال کے بعد ان کے تمام ورثاء ترکہ کے حق دار ہوتے ہیں، اگرچہ بعض ان میں مالدار ہوں اور بعض نادار ، بعض فرمانبردار ہوں اور بعض نافرمان ، میراث میں ہرایک اپنے حصے کے بقدر شریک ہوتاہے ، نافرمانی  کی وجہ سے  اس کا  حق وراثت سے ساقط نہیں ہوتا۔

صورتِ  مسئولہ میں نانی  کے انتقال کے بعد  ان کی تمام  مملوکہ  چیزیں ان کا ترکہ ہے اور  ہر  وارث   اپنے   اپنے شرعی  حصہ کے اعتبار سے  نانی    کی تمام متروکہ  چیزوں  میں حق دار ہے،لہذا نانی کے  ترکہ سے ان کے  تمام بیٹوں اور بیٹیوں  کو حصہ ملے گا ،البتہ  میراث تقسیم ہونے کے بعد  اگر بقیہ بہن بھائی چاہیں کہ وہ اپنا حصہ  جن تین بیٹیوں کی  مالی حالت اچھی نہیں  ان کو دے دیں  تو وہ دے سکتے ہیں ،باقی  ایک بیٹی کے پاس نانی کے ایک لاکھ  روپے جو بطور امانت   رکھےتھے  اور اس میں سے اس نے تیس ہزار روپے  اپنی ضروریات  میں خرچ کردیے ہیں تو وہ اس  کے ذمے قرض ہے، اپنے  حصے  کے  بقدر  رقم منہاکرکے  بقیہ رقم کی واپسی ضروری ہے اور وہ رقم نانی کے دیگر رقم کے ساتھ ورثاء میں تقسیم ہوگی   ،نیز  ورثاء کی  اجازت کے بغیر اس  رقم کو وقف بھی نہیں کرسکتے ، باقی یہ بات بھی ملحوظ   رہے کہ شرعًا والدین کے اولادپر  بہت سے  حقوق ہیں ، والدین سے اونچے  سخت لہجے میں بات کرنا ، گالم گلوچ کرنا باوجود وسعت کے ان کی ضروریات کاخیال نہ رکھنا سب گنا ہ کے کام ہیں  ،نانی کے بیٹے   والدہ  کی  نافرمانی کرنے سے  سخت گناہ گار  ہوئے ہیں  ، اب والدہ کی وفات کے بعد  اس کی تلافی کی صورت یہ ہے کہ  بیٹے اپنی  والدہ  کے لیے دعائے مغفرت کرتے رہیں ور والد ین  کے لیے جتنا ہوسکے ایصالِ ثواب کرتے رہیں نیز والدہ کے دنیا سے جانے کے بعد اگر خالہ موجود ہیں تو ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ رکھیں۔

الموسوعۃ الفقہیہ کوتیہ میں ہے:

"التركة (3) . و هي في الاصطلاح عند الجمهور: ما تركه الميت من أموال و حقوق. و عند الحنفية: هي ما تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال."

(الحقوق المتعلقۃ بالترکۃ 3/19ط: دارالسلاسل)

تکملہ رد المحتار میں ہے:

"الإرث جبري لَايسْقط بالإسقاط."

(كتاب الدَّعْوَى، بَاب التَّحَالُف مطلب واقعة الفتویٰ، 7/505ط:سعید)

شرح المجلہ لسلیم رستم باز میں ہے:

"كما أن أعيان المتوفى المتروكة عنه مشتركة بين الورثة على حسب حصصهم، كذلك يكون الدين الذي له في ذمة آخر مشتركا على قدر حصصهم."

(شرح المجلة لسليم رستم باز مادة:1091 كتاب الشركة، الفصل الثالث، ط:مکتبه حنفيه كوئته)

شرح المجلۃ للرستم باز میں ہے :

"لایجوز لأحد أن یتصرّف في ملك غیرہ بلا إذنه أو وکالة منه أو ولایة علیه، و إن فعل کان ضامنًا."

( المقالۃ الثانیۃ  فی بیان القواعد الکلیۃ  الفقہیۃ  1/ 51 ،  مادۃ96 ط: رشیدیہ)

الدرالمختار میں ہے:

"(ثم) رابعًا بل خامسًا (يقسم الباقي) بعد ذلك (بين ورثته) أي الذين ثبت إرثهم بالكتاب أو السنة."

(شامی کتاب الرائض 6/ 761ط:سعید)

قرآن کریم میں ہے:

"{وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا}"

(سورۃالاسراء :24)

ترجمہ :اور یوں دعا کرتے رہنا  کہ اے  پروردگار ان دونوں پر رحمت فرمائیں جیساکہ انھوں نےمجھ کو بچپن میں پالا پرورش کیا ہے۔

(بیان القرآن 2/374ط:رحمانیہ)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي بكرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «كل الذنوب يغفر الله منها ما شاء إلا عقوق الوالدين فإنه يعجل لصاحبه في الحياة قبل الممات»."

(باب البر والصلة،الفصل الثالث3/ 1383،ط: المكتب الإسلامي)

ترجمہ :" رسول کریمﷺ نے فرمایا ؛ شرک کے علاوہ تمام گناہ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے جس قدر چاہتا ہے بخش دیتا ہے، مگر والدین کی نافرمانی کے گناہ کو نہیں بخشتا، بلکہ اللہ تعالیٰ ماں باپ کی نافرمانی کرنے والے کو موت سے پہلے اس کی زندگی میں  جلد ہی سزا  دے دیتا ہے۔"

الدرالمختار میں ہے:

"(و يستحق الإرث) و لو لمصحف، به يفتى، و قيل: لايورث، و إنما هو للقارئ من ولديه صيرفية بأحد ثلاثة (برحم ونكاح) صحيح فلا توارث بفاسد و لا باطل إجماعًا (وولاء)."

(کتاب الفرائض 6/762ط:سعید)

 مرحومہ  کے ترکے کی تقسیم  کا شرعی طریقہ یہ  ہے کہ سب سے پہلے   مرحومہ  کے حقوقِ متقدّمہ یعنی تجہیز وتکفین  کا خرچہ نکالنے کے بعد  اگر مرحومہ  کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل ترکہ  سے ادا کرنے کے بعداور اگر مرحومہ  نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی  میں سے نافذ کرنے کے بعدباقی  کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 14حصوں میں تقسیم کرکے مرحومہ کے ہرایک  بیٹے کو 2،2حصے، مرحومہ  کی  ہر ایک بیٹی  کوایک ،ایک حصہ ملے گا۔

صورت تقسیم یہ ہے :

مسئلہ:14 (نانی )

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
2222111111

ایک لاکھ روپے میں سے مرحومہ کے ہرایک  بیٹے کو 14285.714روپے، مرحومہ  کی  ہر ایک بیٹی   7142.857 روپے ملیں گے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100685

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں