بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نندوں کی نارضگی کا حل


سوال

  (فتویٰ نمبر144310101583)کا جواب مل گیا ہے،اس فتویٰ کے متعلق میری بہنوں سے بات ہوئی ہے،وہ کہتی ہیں کہ  ہم نے تمہاری بیوی کو معاف کر دیا ہے، لیکن یہ لوگ مرحومہ والدہ کی روش کو لے کر چل رہی ہیں، کہتی ہیں کہ  جو کام امی کی زندگی میں نہیں ہوا اب کیسے کر لیں؟ امی کیا سوچیں گی(کہ میرے مرنے کا انتظار تھا سب صحیح کر لیا)،یہ لوگ  میری بیوی سے کسی قسم کی کوئی بات چیت نہیں کرتی ہیں، بیوی بولے تو مختصر سا جواب دیں گی، بیوی  بظاہرتو ماحول بہتر بنانے کی کوشش کرتی ہے، دل میں کیا ہے اللہ جانتا ہے، ابو کا کھانا پینا بہنیں کرتی ہیں، میں اور میری بیوی الگ کھاتے ہیں، میرے تو سب کچھ سمجھ سے باہر ہے، آپ مشورہ دیں کیا کروں؟ کوئی وظیفہ بتا دیں جس سے سب کے دلوں میں محبت پیدا ہوجا ۓ،کبھی کبھی تو خود کو مار لینے کا دل کرتا ہےیا پھر بیوی کو طلاق دینے کا، برائے مہربانی جلد جواب دےگا، میں انتظار کروں گا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل کی بیوی سائل کی بہنوں سے معافی مانگ چکی ہے، اور انہوں  نے کہہ بھی دیا ہے کہ ہم نے معاف کردیا ہے، اب اس کے بعد اگر ان کا رویہ سائل کی بیوی  کے ساتھ درست نہیں رہتا، تو اس میں سائل کی بیوی کو چاہیے کہ اپنی جانب سے ان کے ساتھ اچھے برتاؤ میں کوئی کوتاہی نہ کرے، اور حسبِ موقع ان کی خدمت بھی کرتی رہیں، باقی اگر سائل کی بہنیں پھر بھی بلا وجہ ناراض  رہتی ہیں تو اس کا گناہ ان ہی پر ہوگا۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:

" حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے اپنے کسی قصور پر معذرت کرے اور وہ مسلمان شخص اس کا عذر تسلیم نہ کرے یا اس کے عذر کو قبول نہ کرے( یعنی یوں کہے کہ تم عذر تو رکھتے ہو مگر میں تمہارے عذر کو قبول نہیں کرتا) تو وہ اسی درجہ گناہ گار ہوگا جس درجہ کا صاحب مکس گناہ گار ہوتا  ہے۔" 

نیز سائل کو چاہیے کہ ان حالات میں مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے اللہ کی رضا کی خاطر صبر اور دور اندیشی سے کام لیں ، اور خود کشی جیسے گناہ کا ارادہ کرنے پر اللہ کے حضور توبہ و استغفار کریں، اور بیوی کو بلا وجہ و بلا قصور طلاق دینا بھی سخت ناپسندیدہ عمل ہے، اس کا بھی خیال دل میں نہ لائیں، بلکہ اللہ سے اپنی اور اپنے گھر والوں کیلئے دعا گو رہیں، اور گھر کے افراد کی اصلاح کے لیے احسن طریقے سے تدبیر اختیار کریں ، اگر کسی طریقے سے بات نہ بن رہی ہو تو سائل اپنی رہائش علیحدہ کرلے۔

مرقات میں ہے:

"وعن جابر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " «من اعتذر إلى أخيه فلم يعذره، أو لم يقبل عذره ; كان عليه مثل خطيئة  صاحب مكس»". رواه البيهقي في " شعب الإيمان " وقال: المكاس: العشار.

5051 - (وعن جابر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: من اعتذر إلى أخيه) أي: المسلم (فلم يعذره) بفتح الياء ويضم وكسر الذال (أو لم يقبل عذره) شك من الراوي وهو تفسير ما قبله (كان عليه مثل خطيئة صاحب مكس) . بفتح الميم أي صاحب عشر، ولما كان الغالب عليه الظلم وعدم العمل بالعلم أطلق ذمه، أو المراد بالمكس أخذ مال الناس بالظلم، ثم رأيت القاموس فقال: المكس النقص والظلم. (رواه البيهقي في شعب الإيمان) . وفي الجامع: رواه ابن ماجه والضياء عن جودان ولفظه: «من اعتذر إليه أخوه بمعذرة فلم يقبلها كان عليه من الخطيئة مثل صاحب مكس» . (قال) أي: البيهقي في تفسير حديثه (المكاس: العشار) . وفي بعض الأصول الماكس: العشار، ولعل المناسبة التشبيهية أن صاحب المكس أيضا لم يقبل اعتذار التاجر في قوله: إن ماله مال أمانة، أو أخذ منه في بندر آخر، أو أنه مديون ونحو ذلك، وكون المشبه به أقوى هو أنه مع هذا يظلم عليه بأخذ ماله مع التعدي إلى الزائد، ونقل ميرك عن المنذري أن حديث جابر رواه الطبراني أيضا في الأوسط، وروي عن عائشة مرفوعا: " «من اعتذر إلى أخيه المسلم فلم يقبل عذره لم يرد على الحوض» ". رواه الطبراني في الأوسط.

وروي عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «ألا أنبئكم بشراركم؟ قالوا: بلى إن شئت يا رسول الله! قال: إن شراركم الذي ينزل وحده ويجلد عبده ويمنع رفده، ألا أنبئكم بشر من ذلك؟ قالوا: بلى إن شئت يا رسول الله! قال: من يبغض الناس وهم يبغضونه قال: أفلا أنبئكم بشر من ذلك؟ قالوا: بلى إن شئت يا رسول الله! قال: الذين لا يقيلون عثرة ولا يقبلون معذرة ولا يغفرون ذنبا قال: أفلا أنبئكم بشر من ذلك؟ قالوا: بلى يا رسول الله! قال: من لا يرجى خيره ولا يؤمن شره» ". رواه الطبراني وغيره، وعن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " «عفوا عن نساء الناس تعف نساؤكم، وبروا آباءكم يبركم أبناؤكم، ومن أتاه أخوه متنصلا فليقبل ذلك محقا كان أو مبطلا، فإن لم يفعل لم يرد على الحوض» ". رواه الحاكم وقال: صحيح الإسناد والتنصل: الاعتذار."

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح،كتاب الآداب، باب ما ينهى عنه في التهاجر والتقاطع واتباع العورات، رقم الحديث: 5051 ، 8 / 3161، الناشر: دار الفكر، بيروت)

شرح مسند أبی حنیفہ میں ہے:

"من لم يقبل عذر مسلم يعتذر إليه فوزره كوزر صاحب مكسٍ:

وبه (عن علقمة، عن ابن بريدة، عن أبيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من لم يقبل عذر مسلم يعتذر إليه) بناء على أنه واجب عليه أن يحسن الظن به في تحقيق عذره، وتصديق أمره (فَوْزرُهُ كَوِزْرِ صَاحِبَ مكسٍ) بفتح فسكون، أي ظلم ونقص، وهو بهذا المعنى، يشتمل كل معتد وجائر في حق الخلق، لكن الصحابة رضي الله عنهم فهموا أنه عليه الصلاة والسلام أراد فرداً خاصاً في هذا المقام.

(فقيل: يا رسول الله، وَمَا صَاحِبُ مَكْس، قال: عشار) أي الظالم في أخذ عشره، والمعتدي في حق غيره، وإنما سمي عشاراً لأنه يأخذ من الحربي الذي مر عليه في طريق التجارة عشر ماله بشروط، ومن الذمي نصف عشره، ومن المسلم ربع عشره، وأما اليوم فترقى في ظلمه حتى يأخذ ربع المال، بل ثلثه، بل نصفه، بل كله. والحديث رواه ابن ماجه، والضيا عن جودان بلفظ: من اعتذر إليه أخوه بمعذرة فلم يقبلها، كان عليه من الخطيئة مثل صاحب مكس."

(شرح مسند أبي حنيفة، ذكر إسناده عن علقمة بن مرثد،  1 / 370، الناشر: دار الكتب العلمية، بيروت)

ریاض الصالحین میں ہے:

"1591- وعن أنس رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قال: قال رَسُول اللَّهِ ﷺ: (لاتقاطعوا ولاتدابروا ولاتباغضوا ولاتحاسدوا؛ وكونوا عباد اللَّه إخواناً، ولايحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ".

ترجمہ: "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : قطع تعلق نہ کرو،  پیٹھ نہ پھیرو، بغض نہ رکھو، حسد نہ کرو، اللہ کے بندے بن کر بھائی بھائی (شیر و شکر) بن جاؤ، اور مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین روز سے اوپر ترک تعلق رکھے۔"

"1592- وعن أبي أيوب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أن رَسُول اللَّهِ ﷺ قال: (لايحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال: يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا؛ وخيرهما الذي يبدأ بالسلام). مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ".

ترجمہ:" مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین راتوں سے زیادہ چھوڑے (ترک تعلق) رکھے، کہ وہ دونوں ملیں پھر یہ اس سے اعراض کرے اور وہ اس سے اعراض کرے، ان دونوں میں سے بہترین وہ شخص ہے جو سلام میں پہل کرے۔"

"1595- وعن أبي هريرة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قال: قال رَسُول اللَّهِ ﷺ: (لايحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث، فمن هجر فوق ثلاث فمات دخل النار). رَوَاهُ أبُو دَاوُدَ بإسناد على شرط البخاري ومسلم".

ترجمہ:" مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق رکھے، پس جس نے تین روز سے زیادہ ترک تعلق رکھا (اسی دوران) اسے موت آگئی تو وہ آگ میں داخل ہوگا۔"

"1596- وعن أبي خِرَاشٍ حدرد بن أبي حدرد الأسلمي، ويقال: السلمي الصحابي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أنه سمع النبي ﷺ يقول: (من هجر أخاه سنة فهو كسفك دمه). رَوَاهُ أبُو دَاوُدَ بإسناد صحيح".

ترجمہ:" جو شخص اپنے بھائی سے سال بھر ناراض رہا ، تو گویا کہ اس کا خون بہا دیا۔"

"1597- وعن أبي هريرة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أن رَسُول اللَّهِ ﷺ قال: (لايحل لمؤمن أن يهجر مؤمناً فوق ثلاث، فإن مرت به ثلاث فليلقه وليسلم عليه، فإن رد عليه السلام فقد اشتركا في الأجر، وإن لم يرد عليه فقد باء بالإثم، وخرج المسلِّم من الهجرة). رَوَاهُ أبُو دَاوُدَ بإسناد حسن. قال أبو داود: إذا كانت الهجرة لله تعالى فليس من هذا في شيء".

ترجمہ:" مؤمن کے لیے حلال نہیں کہ وہ دوسرے مؤمن کو تین دن سے زیادہ چھوڑے (ترک تعلق) رکھے، پس اگر تین دن ہوجائیں، تو اسے چاہیے کہ اس سے جا ملے اور اسے سلام کرلے، پھر اگر وہ سلام کا جواب دے تو وہ دونوں اجر و ثواب میں شریک ہوں گے، اور اگر وہ سلام کا جواب نہ دے تو وہ گناہ گار ہوگا، اور سلام کرنے والا ترک تعلق (کے گناہ) سے نکل جائے گا۔ امام ابو داؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر ترک تعلق و ناراضی اللہ کے لیے ہو تو وہ اس وعید میں داخل نہیں۔"

 ( باب تحريم الهجران بين المسلمين فوق ثلاثة أيام إلا لبدعة في المهجور أو تظاهر بفسق أو نحو ذلك ،الصفحة :532/533، ط: البشري)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403100721

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں