میری بیوی کو آج سے دس سال ہوگئے ہیں ، اپنی ماں کے گھر ، اور میں بلاتاہوں تو وہ آتی نہیں ہے، میں ملنے بھی جاتا ہوں تو ملنے نہیں دیاجاتا اکیلے، میں نے الگ سے ایک نیا گھر خرید کر دینے کی بات کی ، لیکن اس پر بھی وہ راضی نہیں ۔
1.کیا اس کے لیے شوہر کی بات چھوڑ کر بھائی کی بات ماننا درست ہے ؟کس کا حق بنتا ہے ؟آیا اب تک وہ میرے نکاح میں ہے یا نہیں ؟عورت کا ذمہ دار شادی کے بعد کون ہے؟کیا میری بیوی نان و نفقہ کی حق دار ہیں ؟
2.میں نے تیس ہزار مہر دیا تھا اور زیور بھی دیا تھا جہیز میں اس کا کیا حکم ہے ؟کیا وہ میری ملکیت ہے یا نہیں ؟عورت نے زیور لیا ہے اور اب وہ واپس نہیں دیا جارہا، کیا یہ درست ہے ؟
1. شادی کے بعد عورت کے نان ونفقہ اور رہائش وغیرہ کی ذمہ داری شرعاًشوہر کے ذمہ ہے ، عورت کا بلاکسی شرعی عذر کے اپنے بھائی کی باتوں میں آکر شوہر کے گھر سے چلے جانا اور واپس نہ آنا یہ عمل جائز نہیں ہے ، البتہ جب تک سائل اپنی بیوی کو زبانی یا تحریری طلاق نہ دے اس وقت تک عورت علیحدہ رہنے کے باوجود سائل کے نکاح میں ہے ، البتہ اگر نافرمانی عورت کی طرف سے ہے تو وہ شوہر کے گھر چلے جانے اور شوہر کے واپس بلانے کے باوجود واپس نہ آنے کی وجہ سے نان و نفقہ کی حق دار نہیں ہیں ۔
2.مہر عورت کا حق ہے ، لہذا سائل نے جو رقم بطور مہر عورت کو دی ہے وہ عورت ہی کی ملکیت ہے۔
البتہ آپ کی جانب سے عورت کو مہر کے علاوہ جو زیورات دیئے گئے ہیں ، ان سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ اگر یہ زیورات دیتے وقت آپ یا آپ کے گھر والوں یعنی عورت کے سسرال والوں نے اس بات کی صراحت کی تھی کہ یہ بطورِ عاریت یعنی صرف استعمال کرنے کے لیے ہیں تو پھر یہ زیورات لڑکے والوں (یعنی آپ کے گھر والوں )کی ملکیت ہوں گے، اور اگرسسرال والوں نےہبہ ، گفٹ اور مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات کی مالک عورت ہوگی، اور اگر زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں کی تھی تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالک عورت ہوگی، اور اگر بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے،اس صورت میں یہ زیورات لڑکے والے یعنی سائل کے گھر والے واپس لے سکتے ہیں۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(لا) نفقة لأحد عشر: مرتدة، ومقبلة ابنه، ومعتدة موت ومنكوحة فاسدا وعدته، وأمة لم تبوأ، وصغيرة لا توطأ، و (خارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتى تعود ولو بعد سفره خلافا للشافعي، والقول لها في عدم النشوز بيمينها، وتسقط به المفروضة لا المستدانة في الأصح كالموت، قيد بالخروج؛ لأنها لو مانعته من الوطء لم تكن ناشزة."
(کتاب الطلاق،باب النفقۃ، ج:3،ص:576،ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك."
( كتاب النكاح،الفصل السادس عشر فی جھاز البنت،ج:1،ص:327،ط:رشیدیہ)
فتاوی شامی میں ہے:
"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا."
(کتاب النکاح،باب المہر،ج:3،ص:153،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509101345
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن