بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نامناسب تصویریں تصویریں دیکھنے کا گناہ اور توبہ


سوال

کیا مذاق مذاق میں عورت کے جسم کی تصویریں منگوانا گناہ ہے اور اس کی توبہ ہو سکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جان دار کی تصویر بنانا اور دیکھنا  دونوں حرام ہے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر بیوی کے جسم  کی تصویر منگوانے والا شوہر ہے  تو جاندار کی تصویر ہونے کے سبب  حرام ہے  اور اگر  مراد اجنبی عورت ہے تو ا س میں دوہرا گناہ ہےٗ تصویر سازی کا اوردوسرا بدنظری کا جسے حدیث میں آنکھوں کا زنا کہا گیا ہے،لہذا  ضروری ہے کہ اس عمل سے صدقِ دل سے توبہ کرے،نیز  اللہ تعالی کی رحمت سے ناامید بھی نہیں ہونا چاہیے ، توبہ تائب ہونے سے گناہ معاف ہوجاتا ہے،آئندہ اجتناب کا پختہ عزم کیا جائے۔

صحیح ابن حِبان میں ہے:

"عن ابن عباس، ما رأيت شيئا أشبه باللمم مما قال أبو هريرة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "كتب الله على ابن آدم حظه من الزنا، أدرك ذلك لا محالة: فزنى العين النظر، وزنى اللسان النطق، ‌والنفس ‌تتمنى ‌ذلك وتشتهي، ويصدق ذلك الفرج أو يكذبه."

(القسم الثالث،‌‌النوع الثالث والعشرون،‌‌ذكر وصف زنى العين واللسان على ابن آدم،ج4،ص470،رقم:3787،ط:دار ابن حزم)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ‌عائشة أن أم حبيبة وأم سلمة ذكرتا كنيسة رأينها بالحبشة فيها ‌تصاوير لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن أولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجدا وصوروا فيه تلك الصور، أولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة."

(كتاب المساجد،‌‌باب النهي عن بناء المساجد على القبور الخ،ج2،ص66،رقم:528،دار الطباعة العامرة)

وفیہ ایضاً:

"عن النبي صلى الله عليه وسلم: أن رجلا قتل تسعة وتسعين نفسا، فجعل يسأل هل له من توبة؟ فأتى راهبا فسأله فقال: ليست لك توبة فقتل الراهب، ثم جعل يسأل، ثم خرج من قرية إلى قرية فيها قوم صالحون، فلما كان في بعض الطريق أدركه الموت فنأى بصدره، ثم مات فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب، فكان إلى القرية الصالحة أقرب منها بشبر، فجعل من أهلها."

(‌‌كتاب التوبة،‌‌باب قبول توبة القاتل، وإن كثر قتله،ج8،ص104،رقم:2766،ط:دار الطباعة العامرة)

الدر المختار  میں ہے:

"(ومن عرسه وأمته الحلال) له وطؤها .....(إلى فرجها) بشهوة وغيرها والأولى تركه."

(‌‌كتاب الحظر والإباحة،‌‌فصل في النظر والمس،ج6،ص370،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101899

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں