بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نامحرم كو سلام كرنا / ڈراموں میں نکاح کاحکم


سوال

آج کل جو ڈراموں میں نکاح کے سین دیکھائے جاتے ہیں جن میں لڑکا لڑکی باقاعدہ ایجاب وقبول گواہوں کی موجودگی میں کرتے ہیں نام اور ولدیت تو فرضی ہوتی ہے  لیکن زبان سے ایجاب وقبول تو ہوتا ہے تو کیا اس سے نکاح منعقد ہو جاتا ہے؟

نامحرم کو سلام کرنے کا کیا حکم ہے اور نامحرم کو سلام کا جواب دینے کے بارے کیا حکم ہے اگر وہ سلام کریں تو جواب دینا چاہیے یا نہیں کیونکہ سلام کرنا تو واجب نہیں ہے لیکن سلام کا جواب دینا تو واجب ہے۔

جواب

1:واضح  رہے کہ  ڈرامے  میں کیے جانے والے نکاح سے مقصود ریکارڈنگ اور حکایت ہوتی ہے اور دیکھنے والوں کے نزدیک بھی یہ بات معروف ہوتی ہے کہ مقصود نکاح نہیں، بلکہ ریکارڈنگ اور حکایت ہے،  اس لیے کہ ڈراما  میں پہلے ڈراما  نگار فرضی کہانی لکھتا ہے، اور ڈرامہ میں کام کرنے والے اس فرضی کہانی کی عکاسی کرتے ہوئے اس کی حکایت کرتے ہیں، لہذا ڈراما میں اسکرپٹ کی نقل سے نکاح منعقد نہیں ہوگا، اگرچہ حقیقی نام سے بھی ہو۔

صورتِ  مسئولہ میں اگر  ڈرامے میں نکاح سے مقصود  حکایت اورریکارڈنگ ہے تو اس صورت میں نکاح نہیں ہو گا ، اگر حکایت نہیں ہے بلکہ نکاح کرنےکے لیے ایجاب و قبول کے الفاظ ادا کیے ہیں اور لڑکی  کسی اور کی منکوحہ نہیں ہے تو اس صورت میں   نکاح منعقد ہو جائے گا ۔

واضح رہے کہ ڈرامے میں جاندار کی ویڈیو ریکارڈنگ کرنا اور دیکھنا جائز نہیں ہے۔

2:واضح رہے کہ نامحرم کو سلام کرنا بہتر  نہیں، اگر فتنہ اورفساد کااحتمال اوراندیشہ ہوتوناجائز ہے،اور اگر نامحرم جوان مرد/عورت سلام کرے تو دل ہی میں جواب دے دے زبان سے جواب نہ دے اور اگرنامحرم بوڑھا/بوڑھی ہے  تو زبان سے بھی جواب دے سکتے ہیں۔

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"وفي الذخيرة : قال واحد من أهل المجلس للمطربة: "اين بيت بگو كه من بتودادم كه تو جان مني"، فقالت المطربة : ذلك، فقال الرجل : "من پزيرفتم"، إذا قالت على وجه الحكاية فقيل: لاينعقد النكاح، لأنها إذا قالت على وجه الحكاية لاتكون قاصدةً للإيجاب". 

( کتاب النکاح،4/7، مکتبہ فاروقیہ) 

فتاوی شامی میں ہے:

‌"ولا ‌يكلم الأجنبية إلا ‌عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها وإلا لا انتهى (قوله وإلا لا) أي وإلا تكن ‌عجوزا بل شابة لا يشمتها، ولا يرد السلام بلسانه قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلم الرجل أولا، وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت ‌عجوزا رد الرجل - عليها السلام - بلسانه بصوت تسمع، وإن كانت شابة رد عليها في نفسه".

( کتاب الحظر والاباحۃ،فصل فی النظر والمس،369/6،سعید)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144406100730

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں