بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نامحرم سے ضرورت کی وجہ سے بات کرنے کا حکم


سوال

میں ایک کالج کا طالب علم ہوں، میرے ساتھ نا محرم لڑکی بھی پڑھتی ہے، میں الحمدللہ حافظ ہوں اور چہرے پر داڑھی بھی ہے، ایک دن ایک غیر مسلم لڑکی نے مجھ سے قرآن پڑھنے کے لیے بولا، میں نے کچھ سوچا اور ہاں بول دیا، میں اپنے بھائی سے قرآن کی تفسیر پڑھتا، اور مفتی  تقی عثمانی صاحب کے آسان ترجمہ قرآن سے پڑھتا، اور شام میں  اس لڑکی کو سنا دیتا، اس کے جو اشکال ہوتے اگر میں ان باتوں کو جانتا ہوتا تو اس کو بتا دیتا، ورنہ اگلے دن بھائی سے پوچھ کر، یا کسی عالم سے پوچھ کر بتا دیتا، چند پاروں کے بعد اس نے بولا مجھے اسلام قبول کرنا ہے، میں نے اس کو کلمہ پڑھا دیا، اور جو میں جانتا تھا میں نے اس کو سکھانے کی کوشش کی،  اب وہ گھر میں چھپ کر نماز پڑھتی ہے، اس بارے میں اس نے ابھی اپنے گھر نہیں بتایا،ایک اور اس کی دوست تھی ،میں نے ایک سال پہلے اس کو مرنے کے بعد کیا ہوگا،اس بارے میں بتایا، اس کے بعد وہ پریشان رہنے لگی، میں نے محسوس کیا ،تو جو اسلام لا چکی تھی اس کو بولا کہ اس کو سمجھاؤ ،تو ایک دن وہ بھی اسلام لانے کے لیے  بولی، اب وہ بھی اس طرح نماز پڑھتی ہے،دونوں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں، اب اس واقعہ کو 2 سال ہو گئے ہیں، اب ان کے پاس جو اشکال ہوتے ہیں مجھ سے پوچھتی ہیں،اب حضرت ان سے مسائل کے علاوہ بھی بات ہوتی ہے، کہ وہ ہر بات شیئر کرتی ہیں اب ان سے بات کرنا کیسا ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ حرام ہے، مگر ایسی حالت میں کیا صورت نکالی جائے کہ ان کو بھی کوئی پریشانی نہ ہو،اور میں بھی گناہوں سے بچ جاؤں ،راہ نمائی فرمائیں!

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل کا ایک غیر مسلم لڑکی کو مسلمان کرنا قابلِ ستائش اور قابلِ تحسین ہے،البتہ جس امر کا سائل نے ذکر کیا یعنی نامحرم سے بات کرنے کے گناہ ہونے کا ،تو یہ بات اپنی جگہ بالکل مسلم ہے،اور شریعت کا حکم بھی یہی ہے کہ نامحرم سے بغیر کسی ضرورتِ شرعی کے بات کرنا گناہ ہے،اسی چیز کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سائل کو چاہیے کہ کوئی متبادل انتظام کرے کہ وہ اپنا کوئی سوال سائل کے گھر والوں کو ذکر کردیا کرے،اور سائل اس کا جواب دیا کرے،یا پردہ وغیرہ کے پیچھے سے پوچھ لیا جائےاور جواب دے دیا جائے،اب چوں کہ وہ لڑکی مسلمان ہوچکی ہے تو اسےیہ بات بتانا بھی ضروری ہے کہ اسلام میں پردہ کا حکم بھی ہے،جس کا کرنا ہر عورت پر فرض ہے،تاہم   اگر کسی ضرورت اور مجبوری سے نامحرم سے بات کرنی پڑے توفقہاء نے لکھا ہے کہ  بہت مختصر بات کریں، ہاں، ناں کا جواب دے کر بات ختم کرڈالیں، جہاں تک ممکن ہو آواز پست رکھیں اور لہجہ میں کشش پیدا نہ ہونے دیں ،البتہ نامحرم سے ہنسی ،مزاح کرنا،فضول بات کرنا،سخت گناہ ہے،اس کی شریعت میں بالکل اجازت نہیں۔

صاحبِ در مختار لکھتے ہیں:

' فإنا نجيز الكلام مع النساء الأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك، ولانجيز لهنّ رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها و تقطيعها؛ لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن، وتحريك الشهوات منهم، ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة .'

(كتاب الصلاة، مطلب في ستر العورة، ج:1، ص:406، ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

‌"ولا ‌يكلم الأجنبية إلا ‌عجوزا عطست أو سلمت فيشمتها لا يرد السلام عليها وإلا لا انتهى.

(قوله: وإلا لا) أي وإلا تكن ‌عجوزًا بل شابةً لايشمتها، و لايرد السلام بلسانه. قال في الخانية: وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلم الرجل أولا، وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت ‌عجوزًا ردّ الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع، و إن كانت شابّةً ردّ عليها في نفسه."

(فصل فی النظر والمس، کتاب الحظر والاباحة، ص: 369، ج: 6، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406100785

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں