بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

محض نام کرنے سے مکان ملکیت میں نہیں آتا


سوال

میری بیوی کے والد صاحب یعنی کہ میرے سسر صاحب نے آج سے کچھ سالوں پہلے ایک مکان سب گھر والوں کی رہائش کے لیےخریدا اور خرید تے وقت ہی رجسٹرار آفس جا کر اپنی بیوی یعنی کہ میری ساس کے نام کردیا تھا، کیوں کہ میرے سسر صاحب میری ساس سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے ۔ اب میرے سسر صاحب کا انتقال ہوگیا ہے اور انتقال تک سسر صاحب ، ساس صاحبہ اور سب گھر والے اسی مکان میں رہائش پذیر تھے اور ان کی تجہیز وتکفین بھی اسی گھر سے ہوئی تھی ۔ سسر صاحب کے لواحقین میں ایک بیوہ، چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے ۔ اب شریعت کی روشنی سے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں:

سوال نمبر 1۔ شرعی طور پر کیا ساس سمیت ان چار بہنوں اور ایک بھائی کا اس مکان کی وراثت میں حصہ بنتا ہے یا نہیں ؟

سوال نمبر 2۔ اگر ساس اس مکان کو صرف ایک بیٹے یا صرف ایک بیٹی کے نام ہبہ یا گفٹ کرنا چاہیں تو کیا ساس کا یہ عمل شرعی طور پر صحیح ہوگا یا نہیں؟

سوال نمبر 3۔ اکثر ساس یہ فرماتی ہیں کہ بیٹیوں کو ہم نے بہت سارا جہیز دے دیا ہے ،اس لیے اب مکان میں بیٹیوں کا کوئی حصہ نہیں بنتا ۔ کیا ساس کا ایسا کہنا صحیح ہے یا نہیں؟

سوال نمبر 4۔ اگر مکان کی وراثت میں سسر صاحب کے تمام لواحقین کا شرعی حصہ بنتا ہے تو سب کا کتنا کتنا حصہ بنے گا؟ 

جواب

1.واضح رہے کوئی  بھی چیز  محض کسی کے نام کرنے سے اس فرد کی ملکیت میں نہیں آتی ،جب تک کہ وہ چیز مکمل قبضہ و تصرف کے ساتھنہ دے دی  جائے ۔لہذا صورتِ مسئولہ میں جب آپ کے سسر مرحوم نے مذکورہ مکان خرید کر صرف  اپنی اہلیہ یعنی آپ کی ساس کے نام کیا تھا، اس مکان کا  قبضہ ان کے شوہر  ہی  کے پاس تھا اور اپنی وفات تک وہ اسی میں رہائش پذیر رہے  ہیں ، جیساکہ سوال میں درج ہے ، توشرعاً  یہ مکان بدستور  شوہر کی ملکیت میں تھا، جو اب ان کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہوگا اور ان کے تمام شرعی ورثاء  :ان کی بیوہ ، چاروں بیٹیوں اور ایک بیٹے میں شرعی حصص کے حساب سے تقسیم ہوگا۔

2.چوں کہ آپ کی ساس شرعاًاس مکان کی تنہا ملکیت نہیں رکھتی، اس لیے آپ کی ساس کا اس مکان کو اپنے کسی ایک بیٹی یا کسی ایک بیٹے کو دینا جائز نہیں ہے،بلکہ ان کی ساری اولاد اپنے اپنے حصے کی مالک ہوگی۔ اور اگر ساس کی اپنی ملکیت میں کوئی جائیداد ہو تو اس کے بارے میں شریعت کا حکم ہے کہ اولاد کے درمیان اگر تقسیم کرے تو عدل و انصاف اور برابری کے ساتھ تقسیم کرے، کسی کو دینا اور کسی کو محروم کرنا غیر منصفانہ طریقہ ہے۔

3.بیٹیوں کو محض جہیز دینے سے والد مرحوم کے ترکے میں ان کا حصہ ختم نہیں ہوا، اس لیے جہیز دینے کی بنیاد پر بیٹیوں کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔البتہ اگر جہیز دیتے وقت بیٹیوں سے کوئی معاہدہ ہوا ہو تو اس کی صراحت کرکے  مسئلہ دوبارہ معلوم کرلیں۔

4.مرحوم کے ترکے کی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ مرحوم کے  حقوقِ  متقدمہ     یعنی تجہیز و تکفین کا  خرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحوم کے ذمہ  کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں اسے نافذکرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 48حصوں میں تقسیم کر کے 6 حصے مرحوم کی بیوہ کو ، 14 حصے مرحوم کے بیٹے کو اور 7،7حصے مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت  والد 8/48

بیوہبیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
6147777

یعنی سو روپے میں سے12.5روپے مرحوم کی بیوہ کو، 14.58 روپے مرحوم کی ہر ایک بیٹی کو اور29.16 روپے مرحوم کے بیٹے کو ملیں گے۔

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"لايثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية".

(الباب الثانی فیما یجوز من الھبۃ وما لایجوز، ج:4،ص:378،ط:مکتبة رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلاً لملك الواهب لا مشغولاً به) والأصل أن الموهوب إن مشغولاً بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلاً لا، فلو وهب جرابًا فيه طعام الواهب أو دارًا فيها متاعه، أو دابةً عليها سرجه وسلمها كذلك لاتصح، وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط؛ لأنّ كلاًّ منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به؛ لأن شغله بغير ملك واهبه لايمنع تمامها كرهن وصدقة؛ لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية".

(کتاب الھبة، ج:5، ص:690، ط :ایچ ایم سعید)

الفتاوى التاتارخانیة  میں ہے:

"وفي المنتقى عن أبي يوسف: لايجوز للرجل أن يهب لامرأته وأن تهب لزوجها أو لأجنبي دارًا وهما فيها ساكنان، وكذلك الهبة للولد الكبير؛ لأن يد الواهب ثابتة علي الدار".

(14/431،  فیما یجوز من الھبة وما لا یجوز، نوع منه، ط: زکریا، دیوبند، دهلی)

فقط والله أعلم

 


فتوی نمبر : 144402100293

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں