میں اپنے مرحوم والد صاحب کی نماز کا فدیہ دیناچاہتا ہوں ، انہوں نے وفات سے پہلے کوئی وصیت نہیں کی تھی۔اب ان فدیہ کے پیسوں سے میں کسی کو قرآن لے کر دےسکتا ہوں یا نہیں ؟جس کو قرآن دینا ہے انہو ں نے مجھ سے پہلے بولا تھا کہ مجھے ڈیجیٹل قرآن مجید دلا دیں مجھے اپنی غلطیاں درست کرنی ہیں ۔راہ نمائی فرما دیں ۔
اگرآپ کے والد مرحوم نے فدیہ کی وصیت نہیں کی تو شرعاً ورثاء پران کی نماز اور روزہ کا فدیہ ادا کرنا لازم نہیں، البتہ اگر ورثاء از خود باہمی رضامندی سے یاآپ اپنی جانب سے ان کی نماز،روزوں کا فدیہ ادا کردیں تو والد پر احسان ہوگا، ایک نماز کا فدیہ ایک صدقۂ فطر کے برابر ہے اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے، اور ایک صدقۂ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا اس کاآٹا یا اس کی موجودہ قیمت ہے، فدیہ کا مصرف وہی ہے جو زکاۃ کا مصرف ہے یعنی مسلمان فقیر جو سید اور ہاشمی نہ ہو اور صاحبِ نصاب بھی نہ ہو ، لہذا اگر تمام ورثاء ان کی نماز وں کا اندازہ لگاکرفدیہ اداکرنا چاہیں تو مذکورہ طریقے پر ادا کرسکتے ہیں، نیز اگر آپ فدیہ کی رقم سے قرآن پاک خرید کر کسی مستحق کو دیں تب بھی جس قدر قیمت کا وہ قرآن پاک خریدا ہے اتنا فدیہ ادا ہو جائے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
(وجاز دفع القيمة في زكاة وعشر وخراج وفطرة ونذر وكفارة غير الإعتاق) وتعتبر القيمة يوم الوجوب، وقالا يوم الأداء."
(کتاب الزکاۃ، باب زکوۃ الغنم، ج: 2، ص: 285، ط: ایچ، ایم، سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606101458
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن