بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نمازی کے آگے (سامنے) سے گزرنے کا حکم، نماز ٹوٹنے کا حکم


سوال

نمازی کے آگے سے گزرنے سے اگر نماز ٹوٹ جاتی ہے تو کیا پھر نمازی دوبارہ نماز شروع کرے گا۔

جواب

نمازی کے سامنے (آگے) سے گزرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی ہے، خواہ گزرنے والا کوئی جانور ہو یا کوئی انسان (مرد یا عورت) ہو،  البتہ جان بوجھ کر نمازی کے سامنے سے گزرنا (خواہ گزرنے والا مرد ہو یا عورت بشرطیکہ مکلف ہو) ناجائز اور  سخت گناہ کی بات ہے۔ جس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر نمازی کے سامنے سُترہ موجود نہ ہو توبڑی مسجد(یعنی جو 3600 مربع فٹ یا اس سے بڑی ہو)اور کھلے میدان میں نمازی کے آگے سے اتنے فاصلہ پرگزرنا جائز ہے کہ قیام کی حالت میں جب نمازی کی نظر  سجدہ کی جگہ پر ہوتوگزرنے والے پر نگاہ نہ پڑےاور یہ فاصلہ نمازی کی صف کو ملاکر تین صفیں بنتا ہے اور اس سے کم فاصلے سے گزرنا مکروہِ تحریمی اور سخت گناہ ہے،اورچھوٹی مسجد(یعنی جو 3600 مربع فٹ سے کم ہو) میں سُترہ کے بغیرنمازی کے آگے سے گزرنا مکروہِ تحریمی اور سخت گناہ ہے ،اگرچہ تین صفوں کا فاصلہ چھوڑ کر گزرے۔  لیکن اگر نمازی کے  سامنے سترہ موجود ہو تو اس سترے کے آگےسے گزرنا جائز ہے۔ سترہ سے مراد ایسی چیز ہے جو کم از کم ایک ہاتھ (اٹھارہ انچ )کے برابراونچی اورایک انگلی کے برابرموٹی ہو۔

حدیث شریف میں ہے:

’’حضرت ابوجہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر یہ جان لے کہ اس کی کیا سزا ہے تو وہ نمازی کے آگے سے گزرنے کے بجائے چالیس تک کھڑے رہنے کو بہتر خیال کرے۔ (اس حدیث کے ایک راوی )  حضرت ابونضر فرماتے ہیں کہ چالیس دن یا چالیس مہینے یا چالیس سال کہا گیا ہے‘‘۔(صحیح بخاری و صحیح مسلم) 

مذکورہ حدیث کی تشریح میں صاحبِ مظاہرحق علامہ قطب الدین خان دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

’’ حضرت امام طحاوی نے " مشکل الآثار" میں فرمایا ہے کہ  یہاں چالیس سال مراد ہے نہ کہ چایس مہینے یا چالیس دن۔ اور انہوں نے یہ بات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس حدیث سے ثابت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ آدمی جو اپنے بھائی کے آگے سے اس حال میں گزرتا ہے کہ وہ اپنے رب سے مناجات کرتا ہے (یعنی نماز پڑھتا ہے)، وہ (اس کا گناہ) جان لے تو اس کے لیے اپنی جگہ پر ایک سو برس تک کھڑے رہنا زیادہ بہتر سمجھے گا بہ نسبت اس کے کہ وہ نمازی کے آگے سے گزرے۔ بہر حال !ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نمازی کے آگے سے گزرنا بہت بڑا گناہ ہے جس کی اہمیت کا اس سے اندازا  لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی آدمی کو یہ معلوم ہو جائے کہ نمازی کے آگے سے گزرنا کتنا بڑا گناہ ہے اور اس کی سزا کتنی سخت  ہے تو وہ چالیس برس یا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کے مطابق ایک سو برس تک اپنی جگہ پر مستقلًا کھڑے رہنا زیادہ بہتر سمجھے گا بہ نسبت اس کے کہ وہ نمازی کے آگے سے گزرے۔‘‘

المبسوط للسرخسی  میں ہے :

"و الدليل على أن مرور المرأة لايقطع الصلاة ما روي أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلى في بيت أم سلمة فأراد عمر بن أبي سلمة أن يمر بين يديه فأشار عليه فوقف، ثم أرادت زينب أن تمر بين يديه فأشار عليها فلم تقف فلما فرغ من صلاته قال: "هن أغلب صاحبات يوسف يغلبن الكرام ويغلبهن اللئام."

(كتاب الصلاة،1 /350،ط:دارالفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولا يفسدها ... مرور مار في الصحراء أو في مسجد كبير بموضع سجوده) في الأصح (أو) مروره (بين يديه) إلى حائط القبلة (في) بيت و (مسجد) صغير، فإنه كبقعة واحدة (مطلقًا) ولو امرأةً أو كلبًا ... (وإن أثم المار) لحديث البزار «لو يعلم المار ماذا عليه من الوزر لوقف أربعين خريفا» (في ذلك) المرور لو بلا حائل.

(قوله: بموضع سجوده) أي من موضع قدمه إلى موضع سجوده كما في الدرر، وهذا مع القيود التي بعده إنما هو للإثم، وإلا فالفساد منتف مطلقا (قوله في الأصح) هو ما اختاره شمس الأئمة وقاضي خان وصاحب الهداية واستحسنه في المحيط وصححه الزيلعي، ومقابله ما صححه التمرتاشي وصاحب البدائع واختاره فخر الإسلام ورجحه في النهاية والفتح أنه قدر ما يقع بصره على المار لو صلى بخشوع أي راميا ببصره إلى موضع سجوده؛ وأرجع في العناية الأول إلى الثاني بحمل موضع السجود على القريب منه.وخالفه في البحر وصحح الأول، وكتبت فيما علقته عليه عن التجنيس ما يدل على ما في العناية فراجعه (قوله: إلى حائط القبلة) أي من موضع قدميه إلى الحائط إن لم يكن له سترة، فلو كانت لا يضر المرور وراءها على ما يأتي بيانه (قوله: في بيت) ظاهره ولو كبيرا. وفي القهستاني: وينبغي أن يدخل فيه أي في حكم المسجد الصغير الدار والبيت (قوله: ومسجد صغير) هو أقل من ستين ذراعا، وقيل من أربعين، وهو المختار كما أشار إليه في الجواهر قهستاني (قوله: فإنه كبقعة واحدة) أي من حيث إنه لم يجعل الفاصل فيه بقدر صفين مانعا من الاقتداء تنزيلا له منزلة مكان واحد، بخلاف المسجد الكبير فإنه جعل فيه مانعا فكذا هنا يجعل جميع ما بين يدي المصلي إلى حائط القبلة مكانا واحدا، بخلاف المسجد الكبير والصحراء فإنه لو جعل كذلك لزم الحرج على المارة، فاقتصر على موضع السجود، هذا ما ظهر لي في تقرير هذا المحل.

(قوله: ولو امرأة أو كلبا) بيان للإطلاق، وأشار به إلى الرد على الظاهرية بقولهم: يقطع الصلاة مرور المرأة والكلب والحمار. وعلى أحمد في الكلب الأسود وإلى أن ما روي في ذلك منسوخ كما حققه في الحلية ... (قوله وإن أثم المار) مبالغة على عدم الفساد لأن الإثم لا يستلزم الفساد، وظاهره أنه يأثم وإن لم يكن للمصلي سترة وسنذكر ما يفيده أيضا ... (قوله لحديث البزار إلخ) ذكر في الحلية أن الحديث في الصحيحين بلفظ «لو يعلم المار بين يدي المصلي ماذا عليه لكان أن يقف أربعين خيرا له من أن يمر بين يديه» . قال أبو النضر أحد رواته لا أدرى قال أربعين يوما أو شهرا أو سنة قال وأخرجه البزار وقال «أربعين خريفا» وفي بعض روايات البخاري «ماذا عليه من الإثم» اهـ والخريف: السنة؛ سميت به باعتبار بعض الفصول."

وفي تقريرات الرافعي:

"(قوله: ظاهره ولو كبيراً الخ) لكن ينبغي تقييده بالصغير، كماتقدم في الإمامة تقييد الدار بالصغيرة حيث لم يجعل قدر الصفين مانعاً من الاقتداء، بخلاف الكبيرة". (1/83)

(رد المحتار على الدر المختار،كتاب الصلاة، ج:1، ص:634، ط:سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويغرز) ندبا بدائع (الإمام) وكذا المنفرد (في الصحراء) ونحوها (سترة بقدر ذراع) طولا (وغلظ أصبع) لتبدو للناظر (بقربه) دون ثلاثة أذرع (على) حذاء (أحد حاجبيه) ما بين عينيه والأيمن أفضل (ولا يكفي الوضع ولا الخط) وقيل يكفي فيخط طولا، وقيل كالمحراب.

(قوله بقدر ذراع) بيان لأقلها ط. والظاهر أن المراد به ذراع اليد كما صرح به الشافعية، وهو شبران (قوله وغلظ أصبع) كذا في الهداية، لكن جعل في البدائع بيان الغلظ قولا ضعيفا، وأنه لا اعتبار بالعرض. وظاهره أنه المذهب بحر، ويؤيده ما رواه الحاكم وقال على شرط مسلم أنه - صلى الله عليه وسلم - قال «يجزي من السترة قدر مؤخرة الرحل ولو بدقة شعرة» " ومؤخرة بضم الميم وهمزة ساكنة وكسر الخاء المعجمة: العود الذي في آخر رحل البعير كما في الحلية."

(كتاب الصلاة، ج:1، ص:636، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506100449

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں