بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نمازی کے آگے کتنے فاصلے سے گزرا جا سکتا ہے؟


سوال

نمازی کے آگے سے تین صفیں چھوڑ کر گزرنے کا جو مسئلہ ہے اس میں نمازی کی صف شامل ہے یا نہیں؟

جواب

نمازپڑھنے والے کے آگے سے چھوٹی مسجدیا چھوٹے مکان میں گزرنا ناجائزہے جب تک کہ اس کے آگے کوئی آڑ نہ ہو، اوراگرنمازی کے آگے سترہ (کم از کم ایک گز شرعی کے برابراونچی اور کم از کم ایک انگلی کے برابرموٹی کوئی چیز) ہوتو اس آڑ کے آگے سے گزرنا جائزہے، سترے اور نمازی کے درمیان سے گزرنا جائز نہیں۔ اور بڑی مسجد (کم ازکم چالیس شرعی گز یا اس سے بڑی مسجد) یا بڑامکان یا میدان ہو تواتنے آگے سے گزرنا جائز ہے کہ اگر نمازی اپنی نظر سجدہ کی جگہ پر رکھے تو گزرنے والا اسے نظر نہ آئے جس کا اندازہ نمازی کی جائے قیام سے تین صف آگے تک کیا گیا ہے،یعنی نمازی کی صف کے بعد مزید دو صفیں۔اور یہ اندازہ کھلے میدان یا بڑی جگہ کے  بارے میں ہے، چھوٹی مسجد یا محدود جگہ کے لیے نہیں ہے، لہذا چھوٹی مسجد یا محدود جگہ میں اتنے فاصلے سے بھی گزرنا درست نہیں، بلکہ نمازی کی نماز کے ختم ہونے کاانتظار کیاجائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومرور مار في الصحراء أو في مسجد كبير بموضع سجوده) في الأصح (أو) مروره (بين يديه) إلى حائط القبلة (في) بيت و (مسجد) صغير، فإنه كبقعة واحدة (مطلقًا) ولو امرأةً أو كلبًا.

(قوله: بموضع سجوده) أي من موضع قدمه إلى موضع سجوده كما في الدرر، وهذا مع القيود التي بعده إنما هو للإثم، وإلا فالفساد منتف مطلقا (قوله في الأصح) هو ما اختاره شمس الأئمة وقاضي خان وصاحب الهداية واستحسنه في المحيط وصححه الزيلعي، ومقابله ما صححه التمرتاشي وصاحب البدائع واختاره فخر الإسلام ورجحه في النهاية والفتح أنه قدر ما يقع بصره على المار لو صلى بخشوع أي راميا ببصره إلى موضع سجوده؛ وأرجع في العناية الأول إلى الثاني بحمل موضع السجود على القريب منه.
وخالفه في البحر وصحح الأول، وكتبت فيما علقته عليه عن التجنيس ما يدل على ما في العناية فراجعه (قوله: إلى حائط القبلة) أي من موضع قدميه إلى الحائط إن لم يكن له سترة، فلو كانت لا يضر المرور وراءها على ما يأتي بيانه (قوله: في بيت) ظاهره ولو كبيرا. وفي القهستاني: وينبغي أن يدخل فيه أي في حكم المسجد الصغير الدار والبيت (قوله: ومسجد صغير) هو أقل من ستين ذراعا، وقيل من أربعين، وهو المختار كما أشار إليه في الجواهر قهستاني (قوله: فإنه كبقعة واحدة) أي من حيث إنه لم يجعل الفاصل فيه بقدر صفين مانعا من الاقتداء تنزيلا له منزلة مكان واحد، بخلاف المسجد الكبير فإنه جعل فيه مانعا فكذا هنا يجعل جميع ما بين يدي المصلي إلى حائط القبلة مكانا واحدا، بخلاف المسجد الكبير والصحراء فإنه لو جعل كذلك لزم الحرج على المارة، فاقتصر على موضع السجود، هذا ما ظهر لي في تقرير هذا المحل."

(کتاب الصلاۃ، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، 1/ 634/ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100466

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں