بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نمازیں کب اداہوتی ہیں اورکب قضاء ہوتی ہیں ؟


سوال

 صبح کی نماز کس وقت قضاء ہوگی؟ اور اسی طرح اور نمازیں یعنی ظہر عصر مغرب عشاء ان سب نمازوں کی قضاء کس وقت ہوگی؟

جواب

1:فجر کی نماز  کا وقت صبح صادق ہوتے ہی شروع ہوتا ہےاور اسی وقت سے نماز پڑھنا درست ہو جاتا ہے،اور آفتاب کا کنارہ طلوع ہونے سے پہلے تک باقی رہتا ہے، جب آفتاب کا ذرا سا کنارہ بھی نکل آ ئےتو فجر کا وقت ختم ہوجاتا ہےاور یہ وقت مکروہ ہوتا ہے اور اس کے بعد نماز قضا ہوجاتی ہے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وقت الفجر من الصبح الصادق وهو البياض المنتشر في الأفق إلى طلوع الشمس".

(كتاب الصلاة، الباب الأول فى المواقيت، ج:1، ص:51، ط:مکتبه رشیدیه)

2:ظہر کی نماز کا وقت سورج کے زوال کے بعد سے شروع ہوکر  مثلِ ثانی کے آخر تک ہوتا ہے، یعنی جب ہر چیز کا سایہ، اصلی سایہ کے علاوہ اس چیز کے دو مثل ہوجائے۔اس کے بعدقضاء ہوجاتی ہے۔لیکن احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ مثلِ ثانی شروع ہونے سے پہلے پہلے ظہر کی نماز پڑھ لی جائے۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ووقت الظهر من الزوال إلى بلوغ الظل مثليه سوى الفيء، كذا في الكافي. وهو الصحيح، هكذا في محيط السرخسي. والزوال ظهور زيادة الظل لكل شخص في جانب المشرق، كذا في الكافي. وطريق معرفة زوال الشمس وفيء الزوال أن تغرز خشبة مستوية في أرض مستوية فما دام الظل في الانتقاص فالشمس في حد الارتفاع، وإذا أخذ الظل في الازدياد علم أن الشمس قد زالت، فاجعل على رأس الظل علامةً، فمن موضع العلامة إلى الخشبة يكون فيء الزوال، فإذا ازداد على ذلك وصارت الزيادة مثلي ظل أصل العود سوى فيء الزوال يخرج وقت الظهر عند أبي حنيفة - رحمه الله -، كذا في فتاوى قاضي خان. وهذا الطريق هو الصحيح، هكذا في الظهيرية. قالوا: الاحتياط أن يصلي الظهر قبل صيرورة الظل مثله، و يصلي العصر حين يصير مثليه؛ ليكون الصلاتان في وقتيهما بيقين".

(الفتاوي الھندیة ، کتاب الصلاۃ ، الفصل الثاني في بيان فضيلة الأوقات 1/ 51 ط: رشیدیة )

3: عصر کی نماز کا آخری وقت غروبِ شمس (سورج غروب ہونے) سے پہلے  تک ہے، لیکن سورج  کی ٹکیا زرد پڑجانے اور اس کی تیزی ماند پڑجانے سے پہلے ہی عصر کی نماز ادا کرلینی چاہیے، سورج کی تیزی ماند پڑجانے کے بعد غروب سے پہلے عصر کی نماز پڑھنے سے نماز تو ہو جائے گی، لیکن اتنی تاخیر کرنا مکروہ ہے۔اگرسورج غروب ہونےسے پہلےنمازشروع نہیں کی تووہ قضاء شمارہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ووقت العصر منه إلى) قبيل (الغروب).وفى الرد: (قوله: منه) أي من بلوغ الظل مثليه على رواية المتن..........(والمستحب)(و) تأخير (عصر) صيفا وشتاء توسعة للنوافل (ما لم يتغير ذكاء) بأن لا تحار العين فيها في الأصح."

(رد المحتار علی الدر المختار ، كتاب الصلاة ،1/ 359 ، ط: سعيد)

4:  مغرب کی نمازکا وقت سورج غروب ہونے سے لے کر شفقِ ابیض غروب ہونے تک ہے اورشفقِ ابیض سے مراد وہ سفیدی ہے جو سورج غروب ہونے کے بعد آنے والی سرخی کے بعد آتی ہے، اس کے بعدنماز قضا  ہوجاتی ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) وقت (المغرب منه إلى) غروب (الشفق وهو الحمرة) عندهما۔

وفی الرد:قال في الاختيار: الشفق البياض، وهو مذهب الصديق ومعاذ بن جبل وعائشة - رضي الله عنهم -. قلت: ورواه عبد الرزاق عن أبي هريرة وعن عمر بن عبد العزيز، ولم يرو البيهقي الشفق الأحمر إلا عن ابن عمر، وتمامه فيه. وإذا تعارضت الأخبار والآثار فلا يخرج وقت المغرب بالشك كما في الهداية وغيرها".

(رد المحتار علی الدر المختار ، كتاب الصلاة ،1/ 360 ، ط: سعيد)

5: عشاء کی نماز کاوقت شفقِ ابیض غروب ہونے بعد شروع ہوجاتا ہے اور صبح صادق سے پہلے تک رہتا ہے۔  اگر کسی عذر کی وجہ سے عشاء کی نماز میں تاخیر ہوگئی اور   طلوعِ فجر سے پہلے پہلے عشاء کی نماز پڑھ لی تو وہ نمازادا شمارہوگی، قضا شمار نہیں ہوگی۔ البتہ شدید عذر کے بغیر آدھی رات سے زیادہ تاخیر کرنا مکروہ ہے، اس لیے آدھی رات سے پہلے عشاء کی نماز پڑھ لینی چاہیے؛ تاکہ کراہت نہ ہو۔ اور صبح صادق تک بھی عشاء کی نماز ادا نہیں کی تو قضا شمار ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(و) وقت (العشاء والوتر منه إلى الصبح، و) ........(و) تأخير (عشاء إلى ثلث الليل) قيده في الخانية وغيرها بالشتاء، أما الصيف فيندب تعجيلها (فإن أخرها إلى ما زاد على النصف) كره لتقليل الجماعة".

(رد المحتار علی الدر المختار ، كتاب الصلاة ،1/ 361، 367 ، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408102419

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں