بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بدعتی امام کی اقتدا میں نماز


سوال

ایک شخص جرمنی میں جس جگہ کام کرتا ہے، وہاں سے اہلِ حق کی مسجد بہت دور ہے، اور آفس کے نزدیک بدعتیوں (بریلوی مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والی ایک جماعت)  کی مسجد ہے، تو جمعہ کے دن جمعہ کی نماز کے لیے اسے صرف آدھے گھنٹہ کی چھٹی ملتی ہے۔ اتنے مختصر وقت میں اہلِ حق کی مسجد تک جانا اور واپس آنا ممکن نہیں ہوتا؛ اس لیے کہ راستہ بہت لمبا ہے۔ ایسی صورت میں کیا یہ شخص بدعتیوں کی مسجد میں جمعہ پڑھ سکتا ہے؟ اور عام نمازوں کے بارے میں بھی بتائیں، کیا ان کی مسجد میں پڑھی جاسکتی ہیں؟ 

جواب

واضح رہے کہ بریلوی فرقے کے بارے میں ہمارے اکابر نے کفر یا شرک کا فتویٰ نہیں دیا ہے، البتہ ان میں سے جو عملی بدعات میں مبتلا ہیں انہیں بدعتی کہا جائے گا، اور جو جمہور اہلِ سنت والجماعت سے جداگانہ عقائد رکھتے ہیں انہیں بدعتی ہونے کے ساتھ ساتھ گم راہ اور اہلِ ہویٰ میں سے کہا جائے گا۔ بریلوی کی اقتدا میں نماز ادا کرنا مکروہِ تحریمی ہے، صحیح العقیدہ  امام مل جائےتو ایسے بدعتی امام کی اقتدا میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے، اور اگر صحیح العقیدہ امام نہ ملے تو مجبوراً ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے ، جماعت نہیں چھوڑنی چاہیے ، اور اس نماز کے اعادہ کی ضرورت بھی نہیں ہوگی، البتہ متقی پرہیزگار  کے پیچھے نماز پڑھنے سے جتنا ثواب ملتا ہے  اتنا ثواب نہیں ملے گا۔

لہٰذا جب تک مذکورہ عذر برقرار ہو،سائل اس مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرلیا کرے۔ ہاں اگر کسی امام کے متعلق یقین سے معلوم ہوکہ وہ بلاتاویل شرکیہ عقائد میں مبتلا ہے تو  ایسے امام کے عقیدے کا علم ہونے کے باوجود اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، پڑھنے کی صورت میں اعادہ لازم ہوگا۔ البتہ جب تک کسی بریلوی کے متعلق یقین نہ ہو کہ اس کا عقیدہ شرکیہ ہے تو اس کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی صورت میں اعادہ لازم نہیں ہوگا۔

امداد المفتین میں ہے:

’’مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی کے متعلقین کو کافر کہنا صحیح نہیں ہے، بلکہ ان کے کلام میں تاویل ہوسکتی ہے، تکفیرِ مسلم میں فقہاء رحمہم اللہ نے بہت احتیاط فرمائی ہے۔‘‘

(فتاویٰ دار العلوم دیوبند، امداد المفتین، 1/142۔ ط: دار الاشاعت، کراچی)

سابق مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ کا ایک فتویٰ سوال و جواب کی عبارت کے ساتھ درج ذیل ہے:

’’سوال: فرقہ بریلویہ جن کے عقائد مشہور و معروف ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے علمِ غیب کلی عطائی اور آپ ﷺ کو حاضر و ناظر و مختارِ کل مانتے ہیں، نیز آپ ﷺ کو نور مان کر صورۃً بشر کہتے ہیں، علاوہ ازیں نذر لغیر اللہ کو نہ صرف مانتے ہیں، بلکہ اس کی دعوت بھی دیتے ہیں، دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس فرقہ کو مشرک و کافر کہا جائے یا مسلمان مبتدع ضال و مضل؟ 

جواب: کافر و مشرک کہنا مشکل ہے، اکابرِ دیوبند نے ان لوگوں پر ان عقائدِ کفریہ و شرکیہ کے باوجود کفر کا فتویٰ نہیں دیا، اس لیے مبتدع اور ضال مضل کہہ سکتے ہیں، کافر نہیں۔ فقط واللہ اعلم

کتبہ: ولی حسن (21/4/1400)‘‘

جامعہ ہٰذا کے رئیس دار الافتاء مفتی محمد عبدالسلام چاٹ گامی صاحب دامت برکاتہم ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں، جس پر مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب رحمہ اللہ کی تصحیح موجود ہے:

’’واضح رہے کہ بریلوی حضرات کے بعض عقائد کی بنا پر ان کی گم راہی اور غلطی پر ہونے کا فتویٰ دیا جاسکتاہے، لیکن کافر اور مرتد ہونے کا فتویٰ نہیں دیا جاسکتا، اور نہ ہی دیوبندیوں میں سے کسی معتبر عالم نے بریلویوں کے کافر ہونے کا فتویٰ دیا ہے، اس لیے ہم بریلویوں کو مطلقاً کافر نہیں سمجھتے، ضرورت کے تحت ان سے اسلامی تعلقات، نکاح وشادی، کھانا پینا اور دوسرے معاملات کو جائز سمجھتے ہیں، اور ہم اختلاف و انتشار کے قائل نہیں ۔۔۔ البتہ بریلوی حضرات میں سے جو لوگ ہمیں اور اکابرِ دیوبند کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں ان کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ دیوبندی مسلک کے لوگ ان سے تعلقات نہ رکھیں، کیوں کہ ایسے لوگوں کے ساتھ تعلقات رکھنے سے اتفاق کی جگہ انتشار ہوگا۔

کتبہ: محمد عبدالسلام (10/10/1395)                                                               الجواب صحیح: ولی حسن ٹونکی‘‘

تنوير الابصار مع الدر المختار میں ہے:

"(وَيُكْرَهُ)... (وَمُبْتَدِعٌ) أَيْ صَاحِبُ بِدْعَةٍ وَهِيَ اعْتِقَادُ خِلَافِ الْمَعْرُوفِ عَنْ الرَّسُولِ لَا بِمُعَانَدَةٍ بَلْ بِنَوْعِ شُبْهَةٍ وَكُلُّ مَنْ كَانَ مِنْ قِبْلَتِنَا (لَا يَكْفُرُ بِهَا) حَتَّى الْخَوَارِجُ الَّذِينَ يَسْتَحِلُّونَ دِمَاءَنَا وَأَمْوَالَنَا وَسَبَّ الرَّسُولِ، وَيُنْكِرُونَ صِفَاتِهِ تَعَالَى وَجَوَازَ رُؤْيَتِهِ لِكَوْنِهِ عَنْ تَأْوِيلٍ وَشُبْهَةٍ بِدَلِيلِ قَبُولِ شَهَادَتِهِمْ، إلَّا الْخَطَّابِيَّةِ وَمِنَّا مَنْ كَفَّرَهُمْ (وَإِنْ) أَنْكَرَ بَعْضَ مَا عُلِمَ مِنْ الدِّينِ ضَرُورَةً (كَفَرَ بِهَا) كَقَوْلِهِ إنَّ اللَّهَ تَعَالَى جِسْمٌ كَالْأَجْسَامِ وَإِنْكَارُهُ صُحْبَةَ الصِّدِّيقِ (فَلَا يَصِحُّ الِاقْتِدَاءُ بِهِ أَصْلًا) فَلْيُحْفَظ."

رد المحتار میں ہے:

(قَوْلُهُ: وَهِيَ اعْتِقَادُ إلَخْ) عَزَاهُ هَذَا التَّعْرِيفِ فِي هَامِشِ الْخَزَائِنِ إلَى الْحَافِظِ ابْنِ حَجَرٍ فِي شَرْحِ النُّخْبَةِ، وَلَا يَخْفَى أَنَّ الِاعْتِقَادَ يَشْمَلُ مَا كَانَ مَعَهُ عَمَلٌ أَوْ لَا، فَإِنَّ مَنْ تَدَيَّنَ بِعَمَلٍ لَا بُدَّ أَنْ يَعْتَقِدَهُ كَمَسْحِ الشِّيعَةِ عَلَى الرِّجْلَيْنِ وَإِنْكَارِهِمْ الْمَسْحَ عَلَى الْخُفَّيْنِ وَذَلِكَ، وَحِينَئِذٍ فَيُسَاوِي تَعْرِيفَ الشُّمُنِّيِّ لَهَا بِأَنَّهَا مَا أُحْدِثَ عَلَى خِلَافِ الْحَقِّ الْمُتَلَقَّى عَنْ رَسُولِ اللَّهِ  صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِلْمٍ أَوْ عَمَلٍ أَوْ حَالٍ بِنَوْعِ شُبْهَةٍ وَاسْتِحْسَانٍ، وَجُعِلَ دَيْنًا قَوِيمًا وَصِرَاطًا مُسْتَقِيمًا اهـ فَافْهَمْ."

(كتاب الصلاة، بَابُ الْإِمَامَةِ، ١ / ٥٥٩ - ٥٦٢، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109202579

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں