بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز سے مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے کسی شخص کا یہ کہنا کہ


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ  نماز کا انکار کس طرح کرنے سے مسلمان کافر ہو جاتا ہے؟  تین صورتیں مندرجہ ذیل ہیں اس میں کفر ہے یا نہیں؟

١- اگر نماز پڑھنے والا انسان پریشانی کے حل نہ ہونے کی وجہ سے نماز پڑھنے جائے اور یہ خیال بھی ذہن میں ہو  کہ نماز اور  دعا کر رہا  ہوں،  مگر مسئلہ  حل نہیں  ہو رہا  تو  کیا فائدہ نماز پڑھنے جانے کا اور یہ بھی خیال ہو کہ  نہ  جانے کی صورت میں   گناہ  گار ہوں گا تو کیا اب نہ جانے  اور ایسا سوچنے سے وہ کافر ہوگیا کیا ؟

٢- اگر یہی انسان کہے کہ  نماز سے مسئلہ  حل نہیں  ہوا، نماز پڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ،میں نماز نہیں پڑھوں گا تو کیا اس سے وہ  کافر ہوگیا؟

٣- کس طرح نماز کا انکار کرنے سے مسلمان کافر ہوتا ہے؟  زبانی انکار کرنے سے یا عملا انکار کرنے سے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی شخص کا نماز کی فرضیت اور وجوب کا انکار کرنا یا نماز نہ پڑھنے کو جائز سمجھنا یا استخفافاً( اسے حق اور فرض  نہ سمجھتے ہوئے) نماز چھوڑ دینے سے   وہ شخص   کافر ہوجائے گا۔

1 و 2۔صورت مسئولہ میں مذکورہ دونوں صورتوں میں چوں کہ مذکورہ شخص نماز کی فرضیت اور وجوب کا انکار نہیں کر رہا  ہے، اور نہ ہی نماز نہ پڑھنے کو  جائز سمجھ رہا ہے، نیز استخفافاً اسے نہیں چھوڑ رہا ، بلکہ نماز پڑھنے سے وقتی طور پر  اپنا مسئلہ حل نہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ جملہ ادا کر رہا ہے تو اس سے یہ شخص کافر نہیں ہوگا، البتہ ایسا کہنا پھر بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔

3۔زبان سے نماز کی فرضیت کا انکار کرنے والا شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے،تاہم اگر کوئی شخص سستی، کاہلی یا بے دھیانی کی وجہ سے نماز نہیں پڑھتا تو وہ فاجر و فاسق تو ہے، لیکن کافر نہیں ۔

ہندیہ میں ہے:

"وقول الرجل ‌لا ‌أصلي يحتمل أربعة أوجه: أحدها: ‌لا ‌أصلي لأني صليت، والثاني: ‌لا ‌أصلي بأمرك، فقد أمرني بها من هو خير منك، والثالث: ‌لا ‌أصلي فسقا مجانة، فهذه الثلاثة ليست بكفر.والرابع: ‌لا ‌أصلي إذ ليس يجب علي الصلاة، ولم أؤمر بها يكفر."

(کتاب السیر، الباب التاسع فی احکام المرتدین، مطلب فی موجبات الکفر انواع،ج2،ص268، ط: ماجدیہ)

وفيه ايضا:

"رجل ترك سنن الصلاة إن لم ير السنن حقا فقد كفر؛ لأنه تركها ‌استخفافا وإن رآها حقا فالصحيح أنه يأثم؛ لأنه جاء الوعيد بالترك. كذا في محيط السرخسي."

(کتاب الصلاۃ، الباب التاسع فی النوافل، ج1،ص112،ط: ماجدیہ)

الدر مع الرد میں ہے:

"مطلب استحلال المعصية القطعية كفر لكن في شرح العقائد النسفية: استحلال المعصية كفر إذا ثبت كونها معصية بدليل قطعي، وعلى هذا تفرع ما ذكر في الفتاوى من أنه إذا اعتقد الحرام حلالا، فإن كان حرمته لعينه وقد ثبت بدليل قطعي يكفر وإلا فلا بأن تكون حرمته لغيره أو ثبت بدليل ظني. وبعضهم لم يفرق بين الحرام لعينه ولغيره وقال من استحل حراما قد علم في دين النبي - عليه الصلاة والسلام - تحريمه كنكاح المحارم فكافر. اهـ. قال شارحه المحقق ابن الغرس وهو التحقيق. وفائدة الخلاف تظهر في أكل مال الغير ظلما فإنه يكفر مستحله على أحد القولين. اهـ. وحاصله أن شرط الكفر على القول الأول شيئان: قطعية الدليل، وكونه حراما لعينه. وعلى الثاني يشترط الشرط الأول فقط وعلمت ترجيحه، وما في البزازية مبني عليه."

(کتاب الزکاۃ، باب زکاۃ الغنم، ج2، ص293،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100559

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں