بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز سے متعلق متفرق سوالات


سوال

چند سوالات ہیں براہ کرم ان میں راہنمائی فرما دیں۔

1۔ کیا ایسی جگہ جہاں تراویح کا اہتمام بالکل نہ ہو وہاں اکیلے تروایح پڑھ سکتے ہیں اور اس صورت میں با جماعت پڑھنے کی فضیلت کو ملےگی؟  اور 20 رکعت تراویح میں کون سی سورتیں بلا ترتیب پڑھ سکتے ہیں اور تنہا  تراویح پڑھنے کی صورت میں وتر اسی وقت پڑھنا بہتر ہے یا تہجد کے وقت پڑھی جائے تو کیا زیادہ فضیلت ہو گی؟ 

2۔ سوال یہ ہے کہ ماضی میں کوئی حنفی نماز کے مسائل سے پوری طرح واقف نہیں تھا کوتاہی یا کم علمی میں نماز میں کچھ سنگین غلطیاں کرتا رہا ، لیکن اس سے کسی نے نماز کےبارے میں  پوچھا تو اسے غلطیوں کا معلوم ہوا،  مطلب کبھی کبھار نماز میں سورۃ فاتحہ کا دھرانا یا تشہد میں التحیات کا دھرانا جن سے سجدہ سہو واجب ہو جاتا ہے،  لیکن ان غلطیوں کے بارے میں اب معلوم ہو، ا تو پچھلے سالوں میں پڑھی گئی نمازوں کا کیا حکم ہے؟

  3۔ جمعہ کی نماز مجبوری میں کتنے عرصہ تک چھوڑ سکتے ہیں مطلب آرمی یا پولیس کی نوکری میں ایسی جگہ ڈیوٹی ہو جہاں پہ جمعہ منعقد نہیں ہوتا اور نہ ہی جمعہ پڑھنے کی کوئی ترکیب بن سکتی ہے تو کیا سال بھر یا 6 ماہ تک جمعہ نہ ادا کرنے پہ گناہ گار ہو گا؟

4۔ بسم اللّٰہ قرآن مجید کی آیت ہے،  اگر التحیات سے پہلے بسم اللّٰہ پڑھ لی تو کیا حکم ہو گا ؟ کیا قر آن کی آیت پڑھنے کی وجہ سے سجدہ سہو واجب ہو گا؟ 

5۔  امام کا قرات کے دوران گلا  بند ہو گیا یا سانس رک گئی  اور  اس نے بحالی کے لئے زور سے کھانسی کی یا اخخخ کی آواز نکالی اس سے نماز فاسد تو نہ ہو گی؟ 

6۔ دوران امامت اگر وضو ٹوٹ گیا اور مقتدیوں میں کوئی امامت نہ جانتا ہو تو نماز کیسے ختم کرے گا؟ اور دو آدمیوں کی جماعت میں اگر امام کا وضو ٹوٹے تو کیا لائحہ عمل اپنائے گا؟

7۔ نفل،سنت،اورفرضوں میں دو سجدوں کے درمیاناللّهُـمَّ اغْفِـرْ لي ، وَارْحَمْـني ، وَاهْدِنـي ، وَاجْبُرْنـي ، وَعافِنـي اور تشہد میں دعائے ماثورہ کے بعداللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا۔ اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ۔ ربنا آتنا في الدنيا حسنة، یا ایک سے زیادہ  دعاؤں کو ایک نماز میں جمع کر سکتے ہیں؟۔

جواب

1۔ واضح رہے کہ تراویح کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھنا سنت کفایہ ہے، اگر محلہ/ علاقہ کے لوگوں میں سے کسی نے بھی جماعت سے نہیں پڑھی ،تو سنت ترک کرنے کی وجہ سےسب  لوگ گناہ گار ہوں گے، لیکن اگر کسی جگہ مسجد میں تراویح کی نماز نہیں ہوتی تو بہر حال ہر شخص انفرادی طورپر تراویح پڑھنے کا پابند ہےلیکن اس صورت میں  باجماعت  تراویح کا اجر نہیں ملےگا۔ 

 تراویح  کی بیس رکعات میں ترتیب سے قرآن مجید  پڑھنا ضروری نہیں، پس اگر کوئی شخص قرآنِ مجید کی قراءت مختلف مقامات سے کرتا ہے تو شرعًا ممنوع نہ ہوگا، البتہ  تروایح میں ایک مرتبہ قرآن مجید  کی تکمیل مسنون ہے، اس لیے سنت یہ ہے کہ ایک مرتبہ ترتیب سے قرآن مجید مکمل کیا جائے، اس  کے بعد اگر مختلف مقامات سے تراویح میں پڑھا جائے تو حرج نہیں۔ اور تراویح پڑھنے کی صورت میں وتر چاہے تو اسی وقت پڑھ لے اور اگر چاہے تو تہجد میں پڑھ لے، دونوں باتوں کی گنجائش ہے۔

2۔  اگرنماز میں سجدہ سہو لازم ہونے کے بعد کسی نے اس وقت سجدہ سہو نہیں کیا تو وقت کے اندرتو  اس نماز کو لوٹانا واجب ہوتاہے، وقت گزرنے کے بعد نہیں لوٹایاجائےگا۔لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کسی شخص سے ماضی میں کوئی ایسی غلطی نماز میں ہوئی ہو جس سے سجدہ سہو واجب ہوتاہے اور اس وقت لاعلمی کی وجہ سے نہیں کیاتو اب اس نماز کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ لیکن واضح رہےکہ مسلمان کے لیے شرعی احکام سے ناواقفیت عذر نہیں ہے اس لیے ایسے شخص کے ذمہ اپنی ماضی کی غلطیوں پر توبہ و استغفار لازم ہے۔

3۔ اگر ڈیوٹی کسی گاؤں دیہات وغیرہ یا جنگلات کی طرف ہو جہاں پہ جمعہ کی نماز  واجب ہی نہیں ہوتی  تو اس صورت میں جمعہ کی نماز بھی  لازم نہیں ہوگی، اور گناہ بھی نہیں ہوگا۔  اور اگر ایسی جگہ ہو کہ جہاں پہ جمعہ کی نماز کے وجوب کی شرائط موجود ہیں اور جمعہ فرض ہے،لیکن کوئی شخص اپنی ڈیوٹی یا ملازمت کی وجہ سے جمعہ نہیں پڑھتاہے تو وہ گناہ گار ہوگا۔خواہ  کوئی ایک جمعہ بھی ترک کردیاجائے۔

4۔  تشہد سے پہلے "بسم اللہ الرحمن الرحیم" پڑھنا مکروہِ تنزیہی ہے، البتہ اس کے پڑھنے سے  سجدہ سہو لازم نہیں آتا   اور نماز درست ہوجاتی ہے۔

5۔ اگر نماز میں قراءت کے دوران امام کا گلابند ہوجائے یاسانس رک جائے تو امام گلا صاف کرسکتاہے، اور کھانسی بھی کرسکتاہے۔ اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی۔

6۔اگر امام کا وضو ٹوٹ جائے اور مقتدیوں میں سے کسی کو استخلاف( خلیفہ بننے)   اور امامت کے مسائل معلوم نہیں ہیں، تو امام پر نماز کے درمیان نائب بنانا ضروری نہیں ہے، بلکہ ایسی صورت میں امام لوگوں کو مطلع کردے کہ مجھے وضو کی حاجت پیش آگئی ہے، اور پھر اپنی جگہ کسی شخص کو از سرِ نو نماز پڑھانے کا کہہ دے، یا لوگ انتظار کرلیں اور امام وضو کرکے خود نماز پڑھادے۔اور اگر دو آدمی نماز کی  جماعت کررہے ہوں اور نماز کے دوران امام کا وضو ٹوٹ جائے، تو مقتدی خود امام کا قائم مقام ہو کر  اپنی نماز مکمل کرےگا، یعنی اسی جگہ سے نماز کو آگے بڑھائے گا جہاں سے امام صاحب چھوڑ کر گئے تھے،نیز  اگر امام صاحب کا وضو رکوع یا سجود کے دوران ٹوٹا ہو تو  مذکورہ مقتدی کو وہ رکوع یا سجدہ بھی کرنا پڑے گا۔

7۔ نفل، سنت اور انفرادی نمازوں میں مذکورہ دعائیں پڑھ سکتے ہیں،فرائض میں چونکہ امام کو تخفیف کرنے(ہلکی نماز  پڑھانے) کا حکم ہے، اس لیے فرض نماز میں امام کو چاہیےکہ زیادہ دعائیں نہ پڑھے تاکہ مقتدیوں پر بوجھ نہ ہو۔

الدر مع الرد میں ہے:

 "(والجماعة فيها سنة على الكفاية) في الأصح، فلو تركها أهل مسجد أثموا إلا لو ترك بعضهم.

وفي الرد: (قوله والجماعة فيها سنة على الكفاية إلخ) أفاد أن أصل التراويح سنة عين، فلو تركها واحد كره، بخلاف صلاتها بالجماعة فإنها سنة كفاية، فلو تركها الكل أساءوا؛ أما لو تخلف عنها رجل من أفراد الناس وصلى في بيته فقد ترك الفضيلة، وإن صلى أحد في البيت بالجماعة لم ينالوا فضل جماعة المسجد وهكذا في المكتوبات كما في المنية."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب الوتر والنوافل، ج: 2، ص: 45، ط: سعید)

وفيه أيضا:

"ويكره الفصل بسورة قصيرة وأن يقرأ منكوسا إلا إذا ختم فيقرأ من البقرة. وفي القنية قرأ في الأولى الكافرون وفي الثانية - ألم تر - أو - تبت - ثم ذكر يتم وقيل يقطع ويبدأ، ولا يكره في النفل شيء من ذلك.

(قوله ثم ذكر يتم) أفاد أن التنكيس أو الفصل بالقصيرة إنما يكره إذا كان عن قصد، فلو سهوا فلا كما في شرح المنية۔ (قوله ولا يكره في النفل شيء من ذلك) عزاه في الفتح إلى الخلاصة، ثم قال: وعندي في هذه الكلية نظر؛ «فإنه - صلى الله عليه وسلم - نهى بلالا - رضي الله عنه - عن الانتقال من سورة إلى سورة وقال له: إذا ابتدأت سورة فأتمها على نحوها حين سمعه يتنقل من سورة إلى سورة في التهجد» اهـ . واعترض ح أيضا بأنهم نصوا بأن القراءة على الترتيب من واجبات القراءة؛ فلو عكسه خارج الصلاة يكره فكيف لا يكره في النفل؟ تأمل وأجاب ط بأن النفل لاتساع بابه نزلت كل ركعة منه فعلا مستقلا فيكون كما لو قرأ إنسان سورة ثم سكت ثم قرأ ما فوقها، فلا كراهة فيه."

(‌‌شامي، كتاب الصلاة، فصل في القراءة، فروع، قبيل: باب الإمامة، ج:1، ص 547،546، ط: سعید)

البحر الرائق میں ہے:

" وظاهر كلامهم أنه إذا لم يسجد فإنه يأثم بترك الواجب ولترك سجود السهو ثم اعلم أن الوجوب مقيد بما إذا كان الوقت صالحا حتى أن من عليه السهو في صلاة الصبح إذا لم يسجد حتى طلعت الشمس بعد السلام الأول سقط عنه السجود."

(كتاب الصلاة، باب سجود السهو، ج: 2، ص: 99، ط: سعید)

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

"(وإعادتها بتركه عمدا) أي ما دام الوقت باقيا وكذا في السهو ان لم يسجد له وإن لم يعدها حتى خرج الوقت تسقط مع النقصان."

( كتاب الصلاة، ‌‌فصل في بيان واجب الصلاة، ص: 248،247، ط:دار الكتب العلمية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولنا ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع» ، وعن علي - رضي الله تعالى عنه - «لا جمعة ولا تشريق ولا فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع» ، وكذا النبي صلى الله عليه وسلم «كان يقيم الجمعة بالمدينة» ، وما روي الإقامة حولها، وكذا الصحابة - رضي الله تعالى عنهم - فتحوا البلاد وما نصبوا المنابر إلا في الأمصار فكان ذلك إجماعًا منهم على أن المصر شرط؛ ولأن الظهر فريضة فلا يترك إلا بنص قاطع والنص ورد بتركها إلا الجمعة في الأمصار ولهذا لا تؤدى الجمعة في البراري؛ ولأن الجمعة من أعظم الشعائر فتختص بمكان إظهار الشعائر وهو المصر."

(كتاب الصلاة، فصل بيان شرائط الجمعة، ج: 1، ص: 259، ط: سعید)

الدرالمختار میں ہے:

" (والتنحنح) بحرفين (بلا عذر) أما به بأن نشأ من طبعه فلا (أو) بلا (غرض صحيح) فلو لتحسين صوته أو ليهتدي إمامه أو للإعلام أنه في الصلاة فلا فساد على الصحيح."

(‌‌شامي، كتاب الصلاة، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 1، ص 619،618، ط: سعید)

'الفقہ علی المذاھب الاربعہ' میں ہے:

"ومن الكلام المبطل التنحنح إذا بان منه حرفان فأكثر، وإنما يبطل الصلاة إذا كان لغير حاجة فإن كان لحاجة، كتحسين صوته حتى تخرج القراءة من مخارجها تامة، أو يهتدي إمامه إلى الصواب، ونحو ذلك، فإنه لا يبطل."

(كتاب الصلاة،‌‌ التنحنح في الصلاة، ج: 1، ص: 271، ط: دار الكتب العلمية)

'العنایۃ شرح الہدایۃ ' میں ہے:

"(ومن أم رجلا واحدا فأحدث وخرج من المسجد فالمأموم إمام نوى) الإمام ذلك (أو لم ينو) (لما فيه) أي في تعيينه إماما (صيانة صلاة المقتدي) ؛ لأنه لو لم يعين إماما خلا مكان الإمامة عن الإمام وهو يوجب فساد صلاة المقتدي."

(كتاب الصلاة، باب الحدث في الصلاة، ج: 1، ص: 394،393، ط: دار الفكر)

الدر مع الرد میں ہے:

"ولم يستخلف الإمام غير صالح لها.

وفي الرد: (قوله غير صالح لها) كصبي وامرأة وأمي، فإذا استخلف أحدهم فسدت صلاته وصلاة القوم."

(شامي، ‌‌كتاب الصلاة،‌‌ باب الاستخلاف، ج: 1، ص: 600، ط: سعید)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة؛ إن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إذا أم أحدكم الناس فليخفف. فإن فيهم الصغير والكبير والضعيف والمريض. فإذا صلى وحده فليصل كيف شاء."

(كتاب الصلاة، باب أمر الأئمة بتخفيف الصلاة في تمام، ج: 1، ص 387، رقم: 1047، ط: بشري)

الدر المختار میں ہے:

"(ويجلس بين السجدتين مطمئنا) لما مر،... (وليس بينهما ذكر مسنون، وكذا) ليس (بعد رفعه من الركوع) دعاء، وكذا لا يأتي في ركوعه وسجوده بغير التسبيح (على المذهب) وما وردمحمول على النفل."

(‌‌شامي، كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، فصل في بيان تأليف الصلاة إلي إنتها ئها، ج: 1، ص 505، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144409101184

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں