بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز قائم کرنے اور پڑھنے میں فرق


سوال

نماز قائم کرنے اور پڑھنے میں کیا فرق ہے؟

جواب

نماز قائم کرنے سے مراد اللہ  تعالیٰ کے حضور متوجہ ہوکر اخلاص کے ساتھ ، اس کی مکمل شرائط اور ارکان کی رعایت رکھتے ہوئے  نماز کو خشوع وخضوع  کے ساتھ اس کے اوقات میں باجماعت مسجد میں نماز ادا کرنے کو کہتے ہیں،عربی میں  "اقامت صلاۃ " کی تعبیراس پوری کیفیت (سنن وآداب )کے ساتھ نماز پڑھنے پر محیط ہے،جبکہ اردو کی تعبیر  "نماز پڑھنے"میں یہ کیفیت ملحوظ نہیں،دوسرے الفاظ میں  اذان و اقامت کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھنے کو نماز قائم کرنا کہتے ہیں جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد مدینہ میں ایسا ہی کیا ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"{ويقيمون الصلاة ومما رزقناهم ينفقون }

قال ابن عباس: أي: يقيمون الصلاة بفروضها.

وقال الضحاك، عن ابن عباس: إقامة  الصلاة إتمام  الركوع والسجود والتلاوة والخشوع ‌والإقبال ‌عليها ‌فيها.

وقال قتادة: إقامة الصلاة المحافظة على مواقيتها ووضوئها، وركوعها وسجودها.

وقال مقاتل بن حيان: إقامتها: المحافظة على مواقيتها، وإسباغ الطهور فيها  وتمام ركوعها وسجودها  وتلاوة القرآن فيها، والتشهد والصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم، فهذا إقامتها."

(سورۃ البقرۃ،ج1،ص168،ط؛دار طیبہ)

روح المعانی میں ہے:

"ومعنى يقيمون الصلاة يعدلون أركانها بأن يوقعوها مستجمعة للفرائض والواجبات أولها مع الآداب والسنن من أقام العود إذا قومه أو يواظبون عليها ويداومون من قامت السوق إذا نفقت وأقمتها إذا جعلتها نافقة أو يتشمرون لأدائها بلا فترة عنها ولا توان من قولهم قام بالأمر وأقامه إذا جدّ فيه أو يؤدونها ويفعلونها...."

(سورۃ البقرۃ،ج1،ص118،ط؛دار الکتب العلمیۃ)

فقط واللہ ا علم


فتوی نمبر : 144501100385

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں