بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز پوری کیے بغیرغلطی سے سلام پھیر لینا


سوال

غلطی  سے سلام پھیر دیا، دعا عربی میں پڑھ لی   (اللّٰهم ربنا...)  اس کے بعد یاد آیا ، تو کیا حکم ہے؟

جواب

مذکورہ سوال میں "غلطی" سے سائل کی مراد واضح نہیں، اگر سائل کا مطلب یہ ہے کہ نمازی نے کوئی واجب چھوڑ دیا تھا (مثلاً تشہد بھول گیا یا ایک رکعت کم پڑھ لی وغیرہ )اور غلطی سے سلام پھیر دیا اور نماز کے بعد کی دعا مانگنا شروع کردی،پھر اس  کو  کسی فرض یا واجب  یا رکعت کا چھوٹنا یاد آیا تو اس کا حکم یہ ہے  کہ اگر  مذکورہ نمازی نےسلام پھیر کر   نماز کے منافی کوئی  کام نہیں کیا ( مثلًا   کسی سےکوئی بات  چیت نہیں کی تھی اور اپنے سینے کو قبلہ رخ سے بھی نہیں پھیرا تھا، اور چلا پھرا بھی نہیں ) تو اس کو  چاہیے کہ اپنا وہ واجب یا چھوٹی ہوئی رکعت     فورًا ادا کرلے اور آخر میں سجدہ سہو کرلے، اس کی  نماز درست ہو جائے گی، اور اگر سلام پھیرنے کے بعد کوئی عمل نماز کے منافی  کیا (مثلًا بات چیت کی یا قبلہ سے  سینہ پھیردیا)  تو فرض چھوٹنے کی صورت میں نماز ہی ادا نہ ہوئی اور  واجب چھوٹنے کی صورت میں کراہت کے  ساتھ  ادا ہوئی، وقت کے اندر اعادہ واجب اور وقت گزرنے کے بعد اعادہ مستحب ہے  ۔

اور اگر "غلطی" سے مراد یہ ہے کہ کوئی سنت عمل یا مستحب چھوٹا تھا تو نماز ادا ہوگئی، اس عمل کو ادا کرنے یا سجدہ سہو کرنے کی ضرورت نہیں۔

اگر اس کے علاوہ کوئی اور صورت پیش آئی تھی تو اس کی صراحت کر کے سوال دوبارہ ارسال فرمائیں۔

حاشیۂ طحطاوی میں ہے:

"توهم"..."مصل رباعية" فريضة "أو ثلاثية" ولو وترا "أنه أتمها فسلم ثم علم" قبل إتيانه بمناف "أنه صلى ركعتين" أو علم أنه ترك سجدة صلبية أو تلاوية "أتمها" بفعل ما تركه "وسجد للسهو" لبقاء حرمة الصلاة.

قوله: "أو علم أنه ترك سجدة صلبية" أي وقد سلم ساهيا عنها وإلا فسلامه مفسدا... قوله: "أتمها بفعل ما تركه" حاصل المسألة أنه إذا سلم ساهيا على الركعتين مثلا وهو في مكانه ولم يصرف وجهه عن القبلة ولم يأت بمناف عاد إلى الصلاة من غير تحريمة وبنى على ما مضى وأتم ما عليه ... وأما إذا انصرف وجهه عن القبلة فإن كان في المسجد ولم يأت بمناف فكذلك لأن المسجد كله في حكم مكان واحد لأنه مكان الصلاة وإن كان قد خرج من المسجد ثم تذكر لايعود وفسدت صلاته وإن كان في الصحراء فإن تذكر قبل أن يجاوز الصفوف خلفه أو يمنة أو يسرة عاد إلى الإتمام أيضا وإلا فلا وإن مشى أمامه فالأصح أنه إن جاوز موضع سجوده لايعود وهو الأصح لأن ذلك القدر في حكم خروجه من المسجد وهذا إذا لم يكن بين يديه سترة فإن كان يعود ما لم يجاوزها لأن داخل السترة في حكم المسجد وتمامه في شرح العيني على البخاري."

(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (1 / 473)، باب سجود السهو، الناشر: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200770

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں