بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز پڑھتے بچے کے سامنے سے گزرنے کا حکم


سوال

بلا ضرورت نماز پڑھتے بچہ کے سامنے سے نہیں  گزر سکتے ، اس مسئلہ کو مدلل کریں مہربانی ہوگی؟

جواب

جس طرح بالغ نمازی کے سامنے گزرنا ناجائز ہے، اسی طرح اُس بچے کے سامنے سےبھی گزرنا ناجائز ہے جو نماز کی شرائط اور احکام کا خیال رکھتا ہو اور مفسدات نماز سے اجتناب کر تا ہو؛  کیوں کہ بچےکی نماز شریعت کی نگاہ میں درست ہے، نیز بچے کی نماز اگر چہ نفل شمار ہوتی ہے، لیکن جس طرح بالغ نمازی چاہے فرض پڑھتا ہو یا نفل  بہر صورت اس کے سامنے سے  بلاحائل گزرنا  ناجائز ہے ،اسی طرح بچے کے سامنے بھی گزرنا جائز نہیں؛  لہٰذا ایسے نمازی بچے کی  نماز کی حرمت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوگا، اور اگر بچہ نماز کی شرائط کا خیال نہیں رکھتا اور مفسدات کا ارتکاب کرتا ہے تو ایسے بچے کے سامنے سے گزرنے میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیوں کہ حقیقت میں وہ نماز نہیں ہے، صرف ظاہری کچھ افعال ہے۔

عمدۃ القاری میں ہے:

"بيان استنباط الأحكام: وهو على وجوه:. ... التاسع: فيه أن صلاة الصبي صحيحة".

(عمدة القاري: باب حفظ العلم (2/ 180)، ط.  دار إحياء التراث العربي - بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

" فمن لم يكن من أهل الوجوب كالصبي والمجنون فصلاة الصبي تكون تطوعا".

(بدائع الصنائع: كتاب الصلاة، فصل بيان شرائط الجمعة (1/ 259)، ط. دار الكتب العلمية، الطبعة  الثانية: 1406هـ = 1986م)

وفیہ ٲیضًا:

"و يكره للمار أن يمر بين يدي المصلي؛ لقول النبي صلى الله عليه وسلم: «لو علم المارّ بين يدي المصلي ما عليه من الوزر لكان أن يقف أربعين خيرا له من أن يمرّ بين يديه»".

(بدائع الصنائع: كتاب الصلاة، فصل بيان ما يستحب في الصلاة وما يكره (1/ 217)، ط. دار الكتب العلمية، الطبعة  الثانية: 1406هـ = 1986م)

"و في القنية: قام في آخر صف وبينه وبين الصفوف مواضع خالية، فللداخل أن يمر بين يديه ليصل الصفوف؛ لأنه أسقط حرمة نفسه فلا يأثم المار بين يديه، دل عليه ما في الفردوس عن ابن عباس عنه صلى الله عليه وسلم: «من نظر إلى فرجة في صف فليسدّها بنفسه؛ فإن لم يفعل فمر مارٌّ فليتخط على رقبته فإنه لا حرمة له» أي: فليتخط المار على رقبة من لم يسد الفرجة. اهـ".

(حاشية ابن عابدين علي الدر المختار: كتاب الصلاة، باب الإمامة (1/ 570)، ط.سعيد)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"سوال:    نا بالغ بچے اگر نماز پڑھ رہے ہوں تو ان کے سامنے سے مرور جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر وہ نماز کے ارکان زشرائط سے بخوبی واقف ہو ں اورطفل لا یعقل نہ  ہوں بلکہ طفل یعقل ہوں اورمراہق ہوں تو کیا حکم ہے؟

الجواب حامدا ومصلیًّا:   صفوفِ متقدمہ میں جاکر قیام کرنے کے لئے اس مرور کی ضرورت پیش آئے تو اجازت ہے، بلا ضرورت ان کے سامنے کوبھی مرور نہ کیا جاوے؛ ان کی نماز بھی شرعًا نماز ہے،اگر چہ وہ سات سال کے  ہوں"۔

(فتاوی محمودیہ: کتاب الصلاۃ، باب تسویۃ الصفوف وترتیبها (6/ 522، 523)، ط. ادارة الفاروق كراتشي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101873

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں