بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز اور روزوں کے فد یہ کا حکم


سوال

میرا سوال یہ ہے کہ میری والدہ ماجدہ نے ساری عمر روزے نہیں رکھے اور نماز بھی دو وقت کی پڑھتی تھیں ،سستی اوربیماری کی وجہ سےمیری والدہ کی تاریخ پیدائش 1954 ہے تو اس حساب سے والدہ کے روزوں کا کتنا فطرہ دینا پڑے گا؟اگر ہماری اتنی استطاعت نہ ہو تو پھر کیا طریقہ ہوگا روزوں کے کفارے کا؟والدہ صاحبہ کا انتقال ہوچکا ہے اس ستمبرکے مہینے میں،والدہ صاحبہ کو کینسراور کالایرقان تھا۔

جواب

صورت مسئولہ میں اگر آپ کی والدہ نے نماز اور روزوں کے متعلق فدیہ دینے کی وصیت کی ہواور ترکہ چھوڑا ہے توکل ترکہ کے ایک تہائی حصے سے نمازوں اور روزوں کا فدیہ اداء کرنا ورثاء پر لازمی ہے اگر ترکہ ہی نہیں چھوڑا ہے تو ورثاء پر فدیہ اداء کرنا لازمی نہیں ہے ۔ ورثاء اپنی طرف سے اداء کردیں تو بہتر ہے ،مال کے تہائی حصے میں سے بلوغت کے بعد سے لے کر موت تک کی چھوڑی گئی نمازوں اور روزوں کا فدیہ دیا جائے گا،اگربلوغت کا زمانہ یاد نہیں ہے تو پندرہ سال کے بعد نمازوں اور روزوں کی فرضیت کا حکم لگا یا جائے گا ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143101200058

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں