بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز نہ پڑھنے والے کے باقی اعمال کا حکم


سوال

نماز نہ پڑھنے والے کے باقی اعمال قبول ہوتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ ایمان کے بعد  اسلام کا بنیادی ستون نماز ہے،  نمازِ پنج گانہ ادا کرنے سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں،  اور نماز نہ پڑھنے سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں۔  بلاشبہ زنا، چوری وغیرہ بڑے بڑے گناہ ہیں، لیکن بلاعذرِ شرعی نماز نہ پڑھنا ان سب گناہوں سے بڑھ کر ہے۔ نماز کو سستی یا غفلت کی وجہ سے چھوڑنے والا سخت گناہ گار اور فاسق ہےپس اگر کوئی شخص نماز نہیں پڑھتا اور باقی نیک اعمال  کرتا ہے تو اس کے باقی نیک اعمال مقبول ہوں گے،  لیکن نماز چھوڑنے کا وبال اتنا بڑا ہے کہ یہ اعمال اس کا تدارک نہیں کرسکتے۔

کفایت المفتی میں ہے:

"حدیثوں میں عدم قبول اعمال کا جو ذکر آیا ہے ۔ اس سے مراد بھی یہی قبول رضا ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ بعض گناہ شدت سے اس درجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ ان کا مجموعی وزن اس شدید گناہ کے وزن سے کم رہ کر بے اثر اور بے فائدہ اور بے حقیقت ہوجاتا ہے ۔ اس کو قبول نہ ہونے سے تعبیر کردیا گیا ہے۔"

(کتاب العقائد جلد ۱ ص:۳۵۵ ط:دارالاشاعت)

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

"کلمہ شہادت کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن نماز ہے ، نماز پنج گانہ ادا کرنے سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں اور نماز نہ پڑھنے سے بڑھ کر کوئی گناہ نہیں ، زنا ، چوری وغیرہ بڑے بڑے گناہ، نماز نہ پڑھنے کے گناہ کے برابر نہیں ، پس جو شخص نماز نہیں پڑھتا وہ اگر خیر کے دوسرے کام کرتا ہے تو ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ قبول نہیں ہوں گے ، لیکن ترک نماز کا وبال اتنا بڑا ہے کہ یہ اعمال اس کا تدارک نہیں کرسکتے۔"

(نماز کی فرضیت اور اہمیت جلد ۳ ص:۱۸۷ ط:مکتبہ لدھیانوی)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144404101822

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں